ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور (پشاور کیمپس) اور شریعہ اینڈ لاء ڈیپارٹمنٹ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے زیراہتمام 11 اکتوبر 2023ء کو اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے خیبر یونین ہال میں "پاکستان کے قانونی نظام پر نوآبادیاتی دستور سازی کے اثرات" کے عنوان سے ایک پروقار سیمینار کا انعقاد کیا۔
اس سیمینار کے مہمان مقرر ممبر رحیمیہ اکیڈمک کونسل پروفیسر فضل طارق تھے۔ سیمینارکی صدارت جناب عرفان اللہ نے کی جب کہ شریعہ اینڈ لاء ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر فیصل شہزاد بطور مہمان اعزازی شریک ہوئے۔
سیمینارمیں نظامت کےفرائض جناب نورالاسلم نے سرانجام دیے۔ سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت حافظ محمدمشتاق نے حاصل کی ۔ جس کے بعدجناب کاشف حسن نے نظم پیش کی۔
موضوع پر اظہارخیال کرتے ہوئے مہمان مقرر نے فرمایا کہ ”انسانی سماج کی بقا اور ترقی میں اس سماج میں رائج قانونی ڈھانچہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کسی سماج کا قانونی نظام انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے تو وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں لیکن اگر قانونی نظام فرسودہ اور ناقص ہے تو وہ سماج میں جرائم، بدعنوانی، قتل و غارت گری، خوف و ہراس اور تنزل پیدا کرنا ہے۔“
مہمان مقرر کا کہنا تھا کہ ”انسانوں کے لئےقانون کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے اسے اپنا نائب اور خلیفہ بناکر بھیجا ہے۔ اس اعتبار سے گویا یہ احکامات خداوندی کی اساس پر ایک معاشرہ قائم کرنے کا پابند ہے۔ اسی لئے انسانی مادی وروحانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایک مکمل قانونی نظام (شریعت) نازل کیا جاتا ہے تاکہ انسان نظم وضبط اور ڈسپلن کو فالو کرتے ہوئے عطاکردہ قانون کے مطابق زندگی گزارے“۔
آپ کا مزید کہنا تھا کہ ”دین اسلام کا عطاکردہ یہی وہ قانونی ڈھانچہ تھا جو دنیا میں کم وبیش ہزار بارہ سوسال تک قائم ودائم رہا جس کے نتیجے میں دنیا کو امن، عدل اور معاشی خوشحالی میسر آئی۔ اس بات کا اظہار لارڈ میکالے نے بھی کیا کہ جب وہ ہندوستان آیا تو سارے ہندوستان کا اس نے سروے کیا تو واپس انگلستان جاکر اس نے وہاں کی پارلمینٹ میں جو رپورٹ پیش کی، اس سے آسانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ترقی یافتہ اور عدل و انصاف پر مبنی ایک بہترین معاشرہ قائم تھا“۔
آپ نے مزید کہا کہ ”بدقسمتی سے جب ہم 1857ء میں برطانیہ کی غلامی میں چلے گئے تو انگریزوں نے کلونیل ضرورت اور استحصالی نکتہ نظر سے اپنے قوانین یہاں مسلط کیے۔ اور بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان 1947ء میں آزاد ہوا تو بجائے یہاں کے قومی اور ملی تقاضوں کےمطابق قانون بنانے کے ہم نے 1935 ایکٹ کو عبوری عرصہ کے لیے اختیار کیا کہ جب تک ہم اپنا آئین نہیں بنا لیتے اس وقت تک ملک کا یہی آئین ہوگا، لیکن بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ 1956، 1962 اور 1973 کے آئین میں بجائے اس کے کہ 1935 کے انڈیا ایکٹ کو ختم کیا جاتا، الٹا انڈیا ایکٹ 1935 کو تحفظ دے دیا گیا جو آج بھی رائج الوقت قوانین کی صورت میں ہر شعبہ زندگی میں رائج ہیں“۔
آپ نے مزید کہا کہ ”قیام پاکستان کے 76 سال گزرنے کے باوجود آج بھی پاکستان کے فوجداری اور دیوانی قوانین انہی تعزیراتِ ہند کا تسلسل ہیں جو انگریز نے اس خطے پر دورغلامی میں مسلط کئے تھے“۔
آخر میں آپ کا کہنا تھا کہ” آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا قانون کا طالب علم دین اسلام کے عادلانہ قانونی ڈھانچے کا مطالعہ کرے، اسلام کےدورعروج کی روشن تاریخ میں اس کی اثر پذیری کا جائزہ لے کر عصر حاضر کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے سماج کےمسائل کو حل کرنے کا ایک نیا قانونی ڈھانچہ متعارف کروائے کہ جو نہ صرف دین اسلام کی اساسیات اپنے اند سموئے ہوئے ہو بلکہ ہمارے قومی اور اجتماعی تقاضوں کا بھی مکمل آئینہ دار ہو تاکہ ہمارے میں قانون کی پاس داری کے مثبت رویے پروان چڑھیں اور ہمارا سماج بھی امن اور ترقی کا نمونہ پیش کرے“۔
اس کے بعد صدارتی ایوارڈ یافتہ پشتو زبان کے معروف شاعر پروفیسر ڈاکٹر طارق محموددانش نے اپنا منظوم کلام پیش کیا۔
جس کےبعد طلباء نے سوالات کئے اور مہمان گرامی نے ان سوالات کے مفصل جوابات دیے۔
سیمینار کے آخر میں پروفیسر فیصل شہزاد، ایچ او ڈی شریعہ اینڈ لا ڈیپارٹمنٹ، اسلامیہ کالج نے اختتامی کلمات پیش کیے اور ادارہ رحیمیہ کااس بھرپور علمی وفکری نشست کےانعقاد پر شکریہ ادا کیا۔
(رپورٹ: راشد امین قریشی - پشاور یونیورسٹی)