16 جولائی2023 کی سہ پہر3 بجےادارہ رحیمیہ علم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کی مانسہرہ، پکھل اور ہزارہ یونیورسٹی شاخوں کے زیراہتمام جامع مسجد قباء ٹھاکرہ مانسہرہ میں ایک شعوری سیمینار کا انعقاد ہوا۔جس کے مہمان خصوصی حضرت اقدس مفتی شاہ عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی (صدر نشین خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور و ناظم اعلی ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور) تھے۔ دیگر مہمانان گرامی میں مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی(صدر ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ) اور مولانا مفتی محمد مختارحسن (ڈائریکٹرایڈمن ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ) شامل تھے۔
اس سیمینار کی صدارت ادارہ رحیمیہ کےصوبائی کوآرڈینیٹر انجینئر ساجد علی نےکی، نظامت کے فرائض جناب احسن اکبر نے سرانجام دیے جب کہ مولانا قاری خلیل اللہ کی تلاوت کلام سے سیمینار کا آغاز ہوا۔
اس سیمینار کا پہلا موضوع "ولی اللھٰی فکر کی عصر حاضر میں ضرورت و اہمیت" تھا جس پر مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی نے خطاب کرتے ہوئےفرمایا کہ" حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بدلتے ہوئے حالات اور دور جدید کے تقاضوں کے تناظر میں ،اسلام کی صحیح فکر کا تعارف کرایا۔ ہم اگر دوسرے فلاسفروں کو دیکھیں افلاطون سے لے کر مارکس تک، ان کا فلسفہ محدود مادی فکر رکھتا ہے۔ ولی اللھی فلاسفی صرف مادی فلسفہ نہیں بلکہ یہ انسانی فطرت کے مجموعی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مادیت و روحانیت کے جامعیت کے ساتھ سائنسی انداز فکر کے مطابق انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔
آج جب کہ سوشلسزم اور کیپیٹلزم کے نظام دنیا کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوتے نظر آتے ہیں دنیا فکری انتشاراور اجتماعی اضمحلال کا شکار ہےتو ایسے حالات میں تقاضا پیدا ہوتا ہے کہ ہم امام شاہ ولی اللہ ؒ کی فکر کے تناظر میں دنیا میں ایسا نظام قائم کریں جس سے دنیا کے مسائل حل ہوں۔ ہمارے لیے سعادت کی بات ہے کہ اسی جامع فکروعمل کے امین خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین اس سلسلے میں رہنمائی کے لئے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ آپ سے قبل حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ (مسند نشین رابع ۔ خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور) نےاس وطن عزیزکے نوجوانوں میں ولی اللہی فکر پر تعلیم وتربیت کے ذریعے جس عمل کا آغاز کیا،اس نےان کے ذہنوں سے مادی نظاموں (سوشلزم و سرمایہ داری وغیرہ) کا رعب ودبدبہ ختم کردیا جس کے نتیجے میں آج وہ نوجوان پورے انشراح صدر کے ساتھ ولی اللہی فکر کی اساس پر معاشرے کی عادلانہ تشکیل کی جدوجہد مصروف عمل ہیں“۔
اس کے بعد پشتو زبان کے معروف شاعر پروفیسر طارق محمود دانش نے پشتو زبان میں نظم پیش کی۔
سیمینار کے دوسرے موضوع" موجودہ مسائل اور ان کا قرآنی حل"پر حضرت اقدس مفتی شاہ عبدالخالق آزاد مد ظلہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا "یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے گرداب میں مبتلا ہے کہ جس کے تندوتیز جھونکوں نے تھپیڑوں کی صورت میں سماج کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہماری تاریخ کا پون صدی کا دورانیہ سیاسی عدم استحکام، معاشی افلاس، فکری انتشارو ژولیدگی سے عبارت ہے۔ قوم ترقی کی منازل طے کرنے کی بجائے تنزل کی جانب گامزن ہے اوراس سے بھی خوفناک امرتو یہ ہے کہ ہم بحییثت مجموعی اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے اور طرفہ تماشا ملاحظہ ہو کہ اس دھرتی کے بائیس کروڑ افراد یہ خواہش تو رکھتے ہیں کہ تمام مسائل حل ہوں مگر اس قوم کے خود ساختہ راہنما ایسی تشخیصات کرتے ہیں کہ اس وجہ سے نوجوان مزید ذہنی الجھاو کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جن نام نہاد رہنماؤں کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ معاشرے بنتے کیسے ہیں؟ بگڑتے کیسے ہیں؟عمرانیات کی اساسیات کا علم ہی نہ ہو وہ کیسے رہنما قرار دیے جانے کے لائق ہیں؟"
آپ نے مزید فرمایا کہ "ایک طویل دورانیہ سے انسانی معاشروں نے باضابطہ طور پرسماجی تشکیلِ نو کے علم کو دریافت کیا ہے کہ معاشرے کیسے بگڑتے ہیں کیسے ٹھیک ہوتے ہیں؟ گویاانسانی سماج کے مسائل جاننےاور حل کرنے کا ایک مستقل علم استوار کیا ہے۔ دنیا کی 5 ویٹو پاورز نے اپنےتئیں اپنے فلسفہ و فکر کی اساس پر اپنا عمرانی سٹرکچر تشکیل دیا ہوا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جہنوں نے سامراج سے آزادی حاصل کی تو انھوں نےبھی اپنے معاشی، سماجی اور سیاسی نظام استوار کر لیےہیں۔ اب آپ اس جدید دور میں اپنے لیڈران کا تجزیہ تو کریں کہ یہ اپنے معاشرے کے مسائل حل کرنے میں کیا اہلیت رکھتے ہیں؟ یقیناً اس کاجواب نفی میں ہے کہ یہ لوگ تو اسی نظام ظلم کے آلہ کار بن کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔ ان کی امنگوں کا خون کرکے اپنے مکروہ مفادات سمیٹتے ہیں۔
آپ کا مزید کہنا تھا کہ "ہمیں اپنے معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآن کے پیغام انقلاب کو سمجھنا ہوگا۔اس پر عادلانہ اجتماعی، سیاسی ،معاشی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کو تیز تر کرنا ہوگا۔ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا پیغام یہ ہے کہ قرآن کے انقلابی پروگرام کو سمجھیں، قرآن کے سماجی، معاشی اور سیاسی علوم کو سیکھنے کے لیے وقت نکالیں کیوں کہ جب ہمارے نوجوان اس تقاضے کی جانب متوجہ ہوں گے تو ان کا سیاسی شعور بلند ہو گا۔"
آخر میں آپ نے فرمایا کہ ہمارے مسائل کا حل قرآنِ حکیم کے اس عالم گیر نظام میں ہے جو اس کتاب عظیم کی تعلیمات، حضور نبی کریم ﷺ کے اسوہ، جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء اللہ وعلمائے ربانیین نے ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ ہم جتنا جلد ان اصولوں کی طرف متوجہ ہوں گے اتنا ہی جلد ہم اس ذلت کے عذا ب سے چھٹکارہ پا لیں گے وگرنہ اسی انتشار کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔"
اس سیمینار میں ہر شعبہءِ زندگی سےتعلق رکھنے والے احباب کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں نوجوانوں نے خوب ذوق وشوق کے ساتھ شرکت کی۔
حضرت اقدس مدظلہ العالی کے دعائیہ کلمات سے اس پروقار سیمینار کی تکمیل ہوئی۔
(رپورٹ: ریاض محمد جدون ۔ مانسہرہ)