مورخہ 12 اگست 2024 ء بروز سوموار نواب مارکی شادی ہال وہاڑی میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) کے زیرِ اہتمام ایک شعوری سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کے مہمان خصوصی حضرت اقدس مولانا مفتی شاہ عبدالخالق آزاد (ناظم اعلیٰ ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ ٹرسٹ لاہور و مسند نشین خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور)، مہمانانِ اعزازی مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی(صدر ادارہ رحیمیہ و مہتمم جامعہ نعمان بن ثابت، بوریوالہ)، مولانا مفتی عبدالقدیر(مہتمم جامعہ اشاعت العلوم ، چشتیاں) اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد تھے-
پروگرام میں نظامت کے فرائض مجاہد تنویر(ضلعی ناظم عمومی) نے ادا کیے جب کہ صدارت ضلعی صدر کرامت حسین نے کی۔ ناظم اجلاس نے سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کروایا جس کی سعادت مولانا احمد عثمان میانہ نے حاصل کی- تلاوت کے بعد مہمانِ خصوصی اور موضوع کا مختصر تعارف جناب عبید الرحمن نے دوستوں کے سامنے پیش کیا-
سیمینار کے موضوع "اسلام کا پیغامِ آزادی اور نوجوان کے لیے اس کی اہمیت" پر راہنمائی کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی حضرت اقدس مولانا مفتی شاہ عبدالخالق آزاد مدظلہ نے فرمایا، "معزز حاضرین اور عزیز دوستو! ہم یہاں ایسے موقع پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں جو کہ اگست کا مہینہ ہے اور جس میں برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے لوگوں نے انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی۔ یہ آزادی کا مہینہ ہے، اس مہینے میں پاکستان میں بسنے والے نوجوانوں کو اسلام کا پیغامِ آزادی بنیادی طور پر سمجھنا ہے کہ آزادی کسے کہتے ہیں؟ آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کی کیا اہمیت ہے اور کسی قوم کی آزادی کے بعد اس کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے دینِ اسلام کیا رہنمائی کرتا ہے؟"
آپ نے مزید فرمایا،"معزز دوستو! ہم نے یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنایا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ! اب جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا ہے اس ملک کے باسیوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے دور کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے دین اسلام کی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھیں- آج یہ سمجھنا ہے کہ دین اسلام اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے- آج دین اسلام کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے اس حوالے سے آج ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے- آج نوجوان کو یہ مطالعہ کرنا ضروری ہے کہ وہ اسلام کے پیغامِ آزادی کی روشنی میں 76سال گزرنے کے بعد ہمارا یہ وطن عزیز آج ہر چیز سے اجنبی اور بیگانہ ہے اسلام کی تعلیمات سے بہت دور ہے- آج ہماری حالت یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی دین اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اور دنیاوی ترقی کے اعتبار سے ہمارے پاس آگے بڑھنے کی نہ کوئی صورت موجود ہے نہ سیرت۔''
آخر میں مہمانِ خصوصی نے راہنمائی فرمائی کہ،" آزاد قوم وہی ہے جو اپنی دھرتی سے جڑی ہوئی ہے، اور جو اپنی دھرتی سے بے گانہ ہو گیا وہ مہاجر بن گیا۔ دوسروں کی رحم و کرم پر سوار ہو گیا وہ آزاد نہیں ہے درحقیقت غلام ہے-"
-حضرت اقدس مدظلہ العالی کی مدلل گفتگو کو تمام مہمانوں اور شرکاء نے بہت زیادہ سراہا۔ موضوع کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ پر مشتمل تھا- اس کے بعد سات بجے شام مہمانِ خصوصی کے دعائیہ کلمات کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا-
رپورٹ: ندیم فلک ، وہاڑی