بتاریخ 20 فروری 2023ء بروز سوموار دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور اور ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کے اشتراک سے، خواجہ غلام فرید آڈیٹوریم بغداد کیمپس میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک سٹڈیز آئی یو بی اور ڈیپارٹمنٹ آف ریاضی آئی یوبی کے زیر انتظام ایک قومی کانفرنس بعنوان " مستحکم فلاحی معاشرے کا تصور، امام شاہ ولی اللہ ؒ کے افکار کی روشنی میں" منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی صدارت ڈین فیکلٹی آف عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمن نے کی۔ مہمان مقرر خانقاہ رائے پور کے پانچویں مسند نشین و ڈائریکٹر جنرل ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری اور مہمانِ اعزازی مفتی عبدالمتین نعمانی (صدرادارہ رحیمیہ) تھے۔
اس قومی کانفرنس میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد اصغر (شعبہ ریاضی) اور ڈاکٹر محمد یاسر مدنی (شعبہ علومِ
اسلامیہ) نے سرانجام دیئے۔
یگر مہمانان گرامی میں ڈین فیکلٹی آف لاء پروفیسر ڈاکٹر سید آفتاب حسین گیلانی، ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز پروفیسر ڈاکٹر محمد حسان چانڈیو، چیئرمین شعبہ فقہ و شریعہ ڈاکٹر عبدالغفار، چیئرمین شعبہ حدیث ڈاکٹر ابوالحسن، چیئرمین شعبہ عربی پروفیسر ڈاکٹر راحیلہ خالد قریشی، ڈائریکٹر سیرت چیئرڈاکٹر سنجیلہ کوثر، دیگر معزز اساتذہ کرام، پی ایچ ڈی سکالرز، طلباء و طالبات اور و عمائدین شہر شامل تھے۔
کانفرنس کے میزبان اول چیئرمین شعبہ ریاضی پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں مہمانان گرامی و شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ، "دین اسلام نے ہر دور میں انسانوں کی رہنمائی کی ہےاور بحیثیتِ مسلمان ہمارا یہ فرض ہے کہ فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکریں"۔ کانفرنس کے میزبان ثانی چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ ڈاکٹر محمد عمران نے کہا، "حضرت امام شاہ ولی اللہ ؒ کا نام علمی وسیاسی کارناموں کے حوالہ سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود بھی حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تعلیمات پڑھیں اور طلباء وطالبات کو بھی ان تعلیمات سے آگاہ کریں۔ بعد ازاں صدر ادارہ رحیمیہ مفتی عبد المتین نعمانی نے حضرت امام شاہ ولی اللہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا۔" حضرت شاہ ولی اللہ ؒ21 فروری 1703ء کو پیدا ہوئے۔ یہ شہنشاہ عالمگیر کا آخری دور تھا۔ اس دور کے بعد برصغیر میں مسلمان سیاسی سماجی اور معاشی زوال کا شکار ہوئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا اور بعد ازاں دیگر علوم اپنے والد شاہ عبدالرحیم دہلویؒ سے حاصل کیے جو نہایت اونچے درجے کے عالم، فقیہ اور محدث تھے، انہیں طریقت کے چاروں سلاسل سے خلافت بھی حاصل تھی۔ امام شاہ ولی اللہ ؒ نے 17 سال کی عمر میں تمام علوم وفنون حاصل کرلئے ۔ جس کے بعد ان کے والد نے انہیں ذکر و فکر ، روحانیت، طریقت و تصوف کے چاروں سلاسل کی خلافت سے بھی نوازا۔ دو سال تک حرمین شریفین میں گزارے جہاں انہیں عالم اسلام کے بڑے اساتذہ سے استفادہ کا موقع میسر آیا۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے عصر حاضر کے تمام سیاسی ، معاشی ، اور معاشرتی مسائل کا حل نہایت تفصیل سے پیش کیا۔"
اس تعارفی موضوع کے بعد مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری(پانچویں مسند نشین خانقاہ رحیمیہ رائے پور) نے اس سیمینار کت موضوع،" مستحکم فلاحی معاشرے کا تصور، امام شاہ ولی اللہ ؒ کے افکار کی روشنی میں" پر شرکاء سیمینار کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا،"انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد فلاحی معاشرے کا قیام تھا۔ صرف وہی معاشرہ فلاحی معاشرہ کہلا سکتا ہے جس میں بلا تفریق مذہب وملت عدل وانصاف پایا جاتا ہو اور انسانیت کی بقاء اسی نظام میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو جو فلاحی نظام دیا وہ 622ء سے 1922 ، تک قریبا تیرہ سو سال قائم رہا اور ریاست مدینہ کا ارتقاء جاری رہا۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ ؒ نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں اسلامی نظام کے سابقہ ایک ہزار سال کا گہرا مطالعہ کیا اور بتایا کہ انسانی معاشرے کی چار سطحیں (Stages) ہیں۔ پہلی سطح یا ارتفاق اول جس میں وہ انتہائی ابتدائی درجت کی زندگی بسر کرتا ہے۔ ارتفاق ثانی، معاشرے میں اس کی ورکنگ ریلیشن شپ ہے جیسے معاہدہ نکاح، گھر والوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ رفاقت۔ معاشرے کی تیسری اسٹیج ارتفاق ثالث ہے، جو کہ کسی بھی معاشرے کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام ہے، یہ پوری مملکت کے اندر کی ور کنگ ریلیشن شپ ہے۔ جس کو یقینی بنانا، عوام الناس کو تمام تر سہولیات مہیا کرنا، مسائل کا حل کرنا اور عدل و انصاف مہیا کرنا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر کسی بھی مملکت کے لئے تین قسم کے ادارے درکار ہوتے ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اور ارتفاق ثالث کی ہی ذیل میں ریاست کو ریگولیٹ کرنے والی اتھارٹی جو آقاقی یا اللہ تبارک و تعالی کے قانون کے مطابق انسانیت کی فلاح کے لئے کام کرے اور معیشت و تعلیمی بہتری کے لئے کام کرے۔ چوتھی سطح یا ارتفاق رابع ایسی بہت سی فلاحی ریاستوں کی بین الممالک ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ اس کے لئے شاہ صاحب خلافت کبریٰ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی بین الاقوامی نظام تشکیل کرنا۔"
انسانی زندگی کے مراحل کو امام شاہ ولی اللہ ؒ کے نقطہ نظر سے بڑی تفصیل سے بیان کرنے کے بعد مہمانِ خصوصی نے مزید فرمایا،" انسانی معاشرے ان چاروں steps سے گزرتے ہیں۔ دنیا میں فلاحی ریاستوں کے قیام کے لئے چار طرح کی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں اول پاکیزگی اور طہارت ہے، دوم خدائے واحد کی عبادت ، سوم سماحت نفس یا خودی کی پہچان ہے چہارم عدل ہے۔اس سلسلے میں حضرت الامام شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ فلاحی ریاست کے لئے انتظامیہ کے لوگوں کی تعداد اتنی ہو جتنی آٹے میں نمک یعنی سرکاری ملازمین کی تعداد زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور ٹیکسز بھی نہایت معمولی ہوں۔"
پروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمن نے کہا کہ عصر حاضر میں فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے حضرت امام شاہ ولی اللہ ؒ کے افکار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔
تمام شرکاء سیمینار نے اس پروگرام کو سراہا اور اس طرح کے سیمینارز آئندہ بھی منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
رپورٹ: ابراہیم ملانہ۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور