Category
Fatwa Number
Question
آج کل کاروبار کا ایک نیا طریقہ شروع ہوا ہے۔ جسے ’’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اسے ملٹی لیول مارکیٹنگ (Multi Level Marketing) بھی کہتے ہیں۔ اس کاروبار کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں، بلکہ جو شخص کمپنی کا ممبر بنتا ہے، صرف اُسے ہی کمپنی کی مصنوعات فراہم کی جاتی ہیں۔ اور ممبر کو بھی اس شرط پر کمپنی کی مصنوعات ملتی ہیں کہ وہ ناقابل واپسی سالانہ ممبرشپ ادا کرے، یا کم از کم مقررہ قیمت کا مال خریدے اور اپنے تحت مخصوص تعداد میں مزید ممبران بنائے۔ چناں چہ یہ ممبر مزید جتنے لوگوں کو براہِ راست یا اپنے بنائے ہوئے ممبران کے ذریعے سے کمپنی کا ممبر بناتا ہے، اس پر کمپنی کمیشن دیتی ہے۔ اور کمیشن میں ہر ممبر کی سطح اور اس کی حیثیت برابر نہیں ہوتی۔ بلکہ جو پہلے شامل ہوتے ہیں، ان کو زیادہ کمیشن ملتا ہے۔ بعد والے کو اس سے کم اور اس سے بعد والے کو اس سے کم۔ اس طرح پہلے ممبر کا کمیشن دوگنا، تین گنا اور چار گنا تک بھی ہوجاتا ہے۔
اس کاروبار سے متعلقہ لٹریچر ارسال ہے۔ مطالعہ کرکے شرعی حوالے سے بتلائیے۔ کیا یہ کاروبار جائز ہے یا نہیں؟
Answer
’’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘‘ کاروبار کے مطالعے سے درجِ ذیل اُمور واضح ہوتے ہیں:
1۔نیٹ ورک سسٹم میں مصنوعات کی فروخت محض ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ کمیشن کا حصول اولین حیثیت رکھتا ہے، اسی لیے نئے شمولیت کرنے والے افراد کو کمیشن کے حصول کا خوب لالچ دیا جاتا ہے،
2۔اس سسٹم میں اپنی ممبرشپ برقرار رکھنے کے لیے سالانہ متعین رقم جمع کرانی پڑتی ہے، یا ماہانہ متعین خریداری کرنا شرط ہے۔ جو کہ مصنوعات کی خریداری سے الگ حیثیت رکھتی ہے،
3۔اس طرح کی کمپنیوں میں کمیشن پانے کے لیے ممبروں کی تعداد ایک اہم شرط ہے۔ اگر یہ ممبر نہ بنائے جائیں تو خریدار کو کوئی کمیشن نہیں ملتا۔ اور اگر خریدار بنائے جائیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے تو اس کمپنی کے اوپر کے پانچ چھ فی صد لوگ تو بہت سارا نفع حاصل کرتے ہیں، باقی چورانوے فی صد لوگ امید و بیم میں رہ کر نقصان اُٹھاتے ہیں،
4۔’’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘‘ کا مدار افراد کے ’’پھنسنے پھنسانے‘‘ پر ہے۔ چونکہ کمپنی سے محض سامان حاصل کرنا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ منافع اور کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لیے دوسروں کو مختلف انداز میں سچ اور جھوٹ بول کر پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر اگلا آدمی بھی اسی مرض کا شکار ہوکر دوسروں کو پھنساتا ہے،
5۔یہ سسٹم سودی نظام سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ اس میں دولت کا ارتکاز ہوتا ہے۔ چند اوپر کے ممبران کے پاس مربوط انداز اور مخروطی (Pyramid) شکل میں دولت جمع ہوتی رہتی ہے۔ سب سے نیچے کے ممبران منافع سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ یوں دولت کا ارتکاز اس سسٹم میں سودی نظام کی بنسبت زیادہ ہے، اسی لیے ماہرین اقتصادیات و معاشیات نے اس کو ’’کینسر کی سوجن‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔
اس لیے شرعی نقطہ نظر سے یہ کاروبار قطعاً ناجائز اور غلط ہے۔ دین اسلام میں ہر وہ معاملہ غلط قرار پاتا ہے، جس میں: (۱) دغا، فریب اور دھوکہ بازی پائی جائے۔ (۲) ملکی بد انتظامی اور لوگوں کی ضرر رَسانی کا عنصر پایا جائے۔ (۳) خرید و فروخت کے ساتھ کوئی شرط لگا دی جائے۔ (۴) ایسا معاملہ، جس میں بیع کے ساتھ کسی دوسرے معاملے کا قصد کیا جاتا ہو اور بیع صرف بہانہ ہو۔ (۵) یا دو معاملوں کو ایک معاملے کے اندر جمع کردیا گیا ہو۔ ایسے تمام کاروبار کو شریعت نے مکروہ اور ناجائز قرار دیا ہے۔ ’’نیٹ ورک مارکیٹنگ سسٹم‘‘ چوں کہ معاشی اَخلاقی اور شرعی ہر لحاظ سے ناقابل قبول ہے۔ اس لیے تمام اکابر علمائے کرام نے اس معاملے کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ایسی کمپنی میں شرکت کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس سے بچنا اور دوسرے لوگوں کو بچانا ضروری ہے۔