Question
میرے والد صاحب کا 2018ء میں انتقال ہو گیا تھا، ہم چار بھائی دو بہنیں ہیں (دونوں بہنوں کی شادی ہو گئی تھی والد صاحب کی حیات میں) اور والدہ بھی حیات ہیں، اس وقت ہم نے وراثت تقسیم نہیں کی، بڑے بھائی نے والد صاحب کا کام سنبھالا اور ہم تین بھائیوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی والد صاحب کی وفات کے بعد، تو اب وراثت تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار کیا ہو گا؟ وراثت کس حساب سے تقسیم ہو گی(2018ء) یا اب (2025ء) میں جو مال اور قرض ہے، اس حساب سے؟
Answer
الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماً
مرحوم کے انتقال کے بعد جو ورثاء اس وقت موجود تھے وہ اپنے اپنے حصے کے بقدر ترکہ میں شریک تھے۔ 2018ء تا 2025ء جتنا اس میں اضافہ ہوا یا ویلیو بڑھی یا کم ہوئی یا اس ترکہ کے کاروباری مقاصد کیلئے قرضے لئے ، اس میں تمام ورثاء اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہیں۔ لہذا صورت مسئولہ میں مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیز و تکفین کا خرچہ، مرحوم پر کوئی قرض تھا تو اس کی ادائیگی اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تھی تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد) باقی منقولہ و غیر منقولہ ترکہ ، 80 حصوں میں از روئے شریعت تقسیم ہوگا جن میں سے میت کے چار بیٹوں میں سے ہر ایک کے 14، 14 حصے، دو بہنوں میں سے ہر ایک کے 7،7 حصے اور بیوہ کے 10 حصے ہوں گے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب