ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ ٹرسٹ راولپنڈی کیمپس کی زیرِ نگرانی اور جنوبی کینٹ کمیٹی راولپنڈی کے زیر انتظام تاجر برادری کے لیے 17 اکتوبر 2022 بروز سوموار راولپنڈی کے علاقے اڈیالہ میں ایک سیمینار کا انعقاد ہوا۔
اس سیمینار میں مہمان خصوصی ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کے ڈائریکٹر ایڈمن مولانا مفتی محمد مختار حسن تھے۔
سیمینار کا انعقاد شیخ خالد صاحب کی رہائش گاہ پر ہوا جہاں علاقے بھر سے 80 کے قریب تاجروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض جنوبی کینٹ کمیٹی راولپنڈی کے چیئرمین جناب سعد میر نے سرانجام دیے۔ تلاوت قرآنِ حکیم حسنین خان اور نعت رسول مقبول ﷺ عارف خان نے پیش کی۔
سیمینار کے موضوع پر بات کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی مولانا محمد مختار حسن صاحب نے فرمایا کہ ’اسلام کا سب سے بڑا سماجی اصول ہے کہ ہر طبقے کو اپنے اپنے دائرے میں آزادی حاصل ہو۔ لیکن یہ آزادی مادر پدر آزادی نہیں ہے۔ اگر اس سے انسانی سوسائٹی اور اجتماع کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اس پر پابندی ہے۔
’حضور ﷺ نے مدینے کی مارکیٹ کو آزادی دی۔ مدینے کا پرانا نام یثرب تھا۔ وہاں گروہیتیں تھیں۔ حضور ﷺ نے مدینہ کو ان تمام غلط کاریوں سے آزادی دلائی۔احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ 90 فیصد رزق تجارت میں ہے۔ کیوں کہ اس سے جو سرگرمی پیدا ہوتی ہے وہ بہت بڑی ہے۔‘
مہمانِ خصوصی نے تجارت اور کاروبار کے حوالےسے ملکی حالات کا نقشہ حاضرین کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ "ہمارے ملک میں معاشی پالیسی درست نہیں تھی تو کپڑے کی ساری صنعت اٹھ کر بنگلہ دیش چلی گئی۔ بنگلہ دیش نے صنعت کو آزادی دی۔ انہوں نے فیکٹری لگانے سے لے کر گیس بجلی کے کنکشن تک تمام کام ون ونڈو آپریشن کے تحت کر دیے۔ اس لیے وہاں لوگ زیادہ جانے لگے۔‘
انہوں نے اسلامی تاریخ سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف نبوت سے پچیس سال پہلے معاہدہ حلف الفضول کی حمایت اور پابندی کی۔ اس معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ مکہ کی سوسائٹی میں مظلوم کا ساتھ دیا جائے گا اور ظالم سے مظلوم کا حق چھین کر انہیں دلایا جائے گا۔آپ ﷺ نے معاہدہ حلف الفضول پر ایمانداری سے کاربند رہتے ہوئےعمل کرکے دکھایا۔‘
’ہماری ساری زندگی معاہدات کے گرد گھومتی ہے۔ بلکہ انسان اس دنیا میں بھی ایک معاہدے کے تحت آیا ہے۔ عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے "معاہدہ الست" کیا تھا جس میں ان سے اللہ نے اپنی ربوبیت کا معاہدہ کیا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت انسان کو اللہ نے زمین میں خلافت دی۔ بالکل اسی طرح دوستی بھی ایک معاہدے کا نام۔ مسجد ایک معاہدے کا نام ہے۔ بازار ایک معاہدے کا نام ہے۔ کہ بازار میں لوگوں کو تاجروں کو آزادی اور تحفظ حاصل ہو گا۔
معاہدات پر سچائی کے ساتھ قائم رہنا ایمان کا تقاضا ہے۔لین دین میں سچائی کیا ہے؟ ناپ تول میں سچائی کیا ہے؟ پیداوار میں مزدور کے حق میں سچائی کیا ہے؟ اپنے بچوں کے ساتھ سچائی کیا ہے کہ ہم انہیں حلال کا لقمہ کھلا رہے ہیں یا حرام کا؟‘
’تو اس طرح سچائی ایک دائرہ ہے۔
دوسرا دائرہ امانت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا کہ امانت کو ان کے حقدار تک پہنچاؤ۔ یہ بھی امانت ہے کہ ہم کاروبار، تجارت، معیشت، سیاست میں جس چیز کا ہم نے ذمہ لیا ہے کہ وہ چیز ہم انسانی سوسائیٹی تک یا قوم تک پہنچائیں گے وہ بھی امانت کی ایک شکل ہے۔‘
مہمانِ خصوصی نے مزید فرمایا کہ ’اسلام دنیا میں ان اصولوں پر تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس میں ہمارے درمیان موجود تمام شعبوں کے لوگ شریک ہیں۔جو عمل اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ باعث ثواب ہے۔ اس لیے جب تم کاروبار کرو یہ نیت ہو کہ یہ بچے اللہ نے میرے ذمے لگائے ہیں۔ میں ان کے حصے کا رزق کما رہا ہوں۔ اسی طرح ملازمت کرتے ہوئے بھی اللہ کی رضا کی نیت ہو گی۔‘
’بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا فریضہ ہے۔ ادا نہ کرنا گناہ ہے۔ اس لیے فرائض و ارکان کے بعد حلال کمانا کار ثواب ہے۔‘
مہمانِ خصوصی نے سیمینار میں اپنی گفتگو کو اختتام اس نیک خواہش اور دعا سے کیا کہ تمام حاضرین کو اسوہ نبوی ﷺ کو اپنانے کی توفیق عطا ہو۔