سماج کی ترقی میں محنت کا کردار

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ہزارہ ڈویژن شاخ اور یونیورسٹی آف ہری پور کی پبلک ہیلتھ سوسائٹی کے باہمی اشتراک سے 15 مئی 2024ء کو یونیورسٹی آف ہری پور میں دوپہر 12 بجے ایک شعوری سیمینار بعنوان ”سماج کی ترقی میں محنت کا کردار“ کا انعقاد کیا گیا۔ 
سیمینار کے مہمان خصوصی انجنئیر ساجد علی (ریجنل کوآرڈینیٹر ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ(ٹرسٹ) لاہور) اورسیمینار کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر اعجازالحق (اسسٹنٹ پروفیسر پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ) تھے۔ سیمینار کی صدارت ڈاکٹر طیب نے کی جب کہ نظامت کے فرائض  جناب محمدعاقب نے سرانجام دیے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز عمران دانش نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔
سیمینار کے مہمان خصوصی نے آغاز میں موضوع کے مقاصد کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آج کی نشست میں ہم اس بات کو سمجھیں گے کہ "سماج کی ترقی کن بنیادوں پر ہوتی ہے؟ اس کی حکمت  عملی کیا ہے؟" اور "اس ترقی میں محنت کا کیا کردار ہے؟"  آج ہماری نسل نو جس کے ہاتھ میں اس قوم کا مستقبل ہے اسے اس کی ذمہ داریوں سے آگہی کی ضرورت ہے، اقوام جب تک اپنے اہداف و مقاصد سے آگاہ نہیں ہوتیں وہ درست رخ پر سفر نہیں کر سکتیں۔ موجودہ دور میں آج کے نوجوان مایوسی اور جذباتیت کا شکار ہیں۔ جب کسی معاشرے کے نوجوان میں ایسے رویے پیدا ہوں تو وہاں کے اہل علم ودانش طبقے کو چاہئے کے نوجوان کو مایوسی سے نکالیں، امید کا راستہ  دکھائیں ، اشتعال اور جنونیت سے نکال کر شعور کا راستہ دکھائیں کیونکہ امید اور شعور جب آپس میں ملتے ہیں تو ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔"
مہمان خصوصی نے پاکستانی سماج کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ، "آج ہمارا ملک دنیا کی اقوام میں اپنا کوئی نمایاں مقام و مرتبہ نہیں رکھتا، سائنسی ، معاشی اور سماجی حوالے سے ہم ترقی یافتہ اقوام سے بہت پیچھے ہیں اور ہمارے نوجوان کے دلوں میں اس تنزلی کا دکھ ہے اور وہ اپنے ملک کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ معاشرے کے اندر ترقی کے معیارات کا تعین بہت ضروری ہوتا ہے۔"

مہمان خصوصی نے قرآنی آیات کی روشنی میں ترقی یافتہ سماج اور زوال یافتہ سماج کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ، "ترقی یافتہ سماج وہ ہوتا جہاں لوگ امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہاں وسائل کی فراوانی یعنی معاشی خوش حالی موجود ہوتی ہے۔ لوگ فطرت کے تقاضوں کے مطابق ترقی کرتے ہیں اور زوال یافتہ سماج کے اندر خوف و بے چینی ہوتی ہے، طبقاتیت موجود ہوتی ہے ، وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہوتا اور اکثریت ان وسائل سے محروم ہوتی ہے۔"
مہمان خصوصی نے اپنے خطاب کے آخر میں طلباء کو اس بات پر غور وفکر کی دعوت دی کہ جتنے بھی مسائل اور معاشرتی زوال ہے وہ اس محنت کے استحصال کے موجب نظام کی وجہ سے ہے۔ اس نظام کو بدلنا ضروری ہے۔ آج اگر ہم زوال سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر قسم کی فرقہ واریت، لسانیت، تقسیم، انتشار اور باہمی نفرتوں سے بالا تر ہو کر سنجیدگی کے ساتھ، تعمیری انداز میں دین کا مطالعہ "سماج اور سوسائٹی" کی تشکیل کے نقطہء نظر سے کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے نوجوان دین کے نظام کو جاننے ، سمجھنے اور شعور رکھنے والا ہونا چاہیے۔"

موضوع کے بعد طلباء کے ساتھ سوالات و جوابات کا سیشن بھی ہوا۔ سیمینار میں پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ دیگر شعبوں کے فیکلٹی ممبران اور طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے بھرپور توجہ اور دل چسپی کے ساتھ شرکت کی۔
آخر میں صدر نشست ڈاکٹر اطیب نے معزز مہمانِ گرامی کو اعزازی شیلڈ پیش کیا۔

رپورٹ: شہاب الدین بنگش ۔پشاور