ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور اپنے قیام 2001 ء سے اب تک دینی و عصری تعلیم و تربیت کا بہ خوبی اہتمام رکھے ہوئے ہے۔ نظام المدارس الرحیمیہ پاکستان کے تحت ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) اور اس کے ذیلی مدارس و مکاتب میں درسِ نظامی کی تعلیم کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ”تقریبِ افتتاح صحیح بخاری شریف“ بھی ہے۔
16 شوال المکرم 1444ھ / 7؍ مئی 2023ء بروز اتوار کو ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ادارہ میں دورۂ حدیث شریف کے طلبا کا صحیح بخاری شریف کا پہلا سبق ہوا۔ اس سلسلے میں ادارہ رحیمیہ میں ’’تقریبِ افتتاح صحیح بخاری شریف‘‘ منعقد ہوئی۔
تقریب کی نظامت مولانا محمد عباس شاد نے کی۔ مولانا عبدالرؤف کی تلاوتِ کلامِ پاک سے تقریب کا آغاز ہوا، اس کے بعد راقم الحروف نے نعت النبی ﷺ پیش کی۔ ناظمِ اجلاس نے حضرت مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی مدظلہ (صدر ادارہ رحیمیہ و شیخ الحدیث جامعہ خدیجۃ الکبریٰ بورے والا) کو ”علم حدیث کی ضرورت و اہمیت اور ولی اللّٰہی جماعت کی خدمات“ کے موضوع پر خطاب کے لیے دعوت دی۔
مفتی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
”علم حدیث ایسا علم ہے کہ جس نیت سے اسے حاصل کیا جائے، اسی کے مطابق یہ افراد تیار کرتا ہے۔ اگر ثواب کی نیت سے پڑھا جائے تو ثواب مل جاتا ہے، فکرِ آخرت کے نقطہ نظر سے پڑھا جائے تو عذابِ قبر اور حشر کی ہولناکیوں سے انسان بچ جاتا ہے۔ اور اگر یہ علم غلبہ دین کے نقطہ نظر سے حاصل کیا جائے تو رہنمائی کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مسائل حل کرنے اور معاشرے میں ترقی کرنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے“۔
نیز مفتی صاحب نے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کی پوری جماعت کی علم حدیث کے حوالے سے کی جانے والی خدمات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ولی اللّٰہی تعلیمات کی روشنی میں جدید دور کے مسائل کے حل حوالے سے علم حدیث سے رہنمائی کی طرف توجہ دلائی۔
مفتی صاحب کے بعد حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ ناظمِ اعلیٰ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ) نے دورۂ حدیث شریف کے طلبا کو بخاری شریف کا آغاز کراتے ہوئے صحیح بخاری شریف کی پہلی حدیث پر جامع اور مفصل خطاب ارشاد فرمایا۔ اور اس پر روشنی ڈالی کہ کس طرح سے حضرت امام بخاریؒ نے دین کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو احادیث کی صورت میں مرتب و مدوّن کیا۔
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
”قرآن حکیم ایک آئینی اور دستوری فریم ورک کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ اس آئین پر عمل درآمد کے لیے ایک ایسے نظام اور طریقۂ کار کی ضرورت تھی، جو عملًا تمام انسانیت کے لیے مفید ہو۔ ان کے مسائل حل کرتا ہو۔ یہ کام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی احادیثِ نبویہ نے کیا۔ احادیثِ نبویہ دین کے مکمل اور کامل نظام کی توضیح اور تشریح ہیں۔ اسی طرح جہاں آئین اور دستور کی اہمیت ہوتی ہے، وہاں اُس آئین اور دستور پر عمل درآمد کا طریقۂ کار، اس کا سسٹم، اس کے بنیادی اَساسی اُمور کا تعین، اس کے عملی پہلوؤں کی نشان دہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے اتھارٹیز بھی بنائی جاتی ہیں۔ ان پر عمل درآمد کا طریقہ طے کیا جاتا ہے۔ اس کے ذیلی قوانین بنتے ہیں۔ یہ تمام اُمور خود حضور ﷺ نے کتابِ مقدس قرآن حکیم کی روشنی میں انسانیت کے لیے واضح کیے ہیں“۔
حضرت مدظلہ نے مزید فرمایا کہ: ” آیاتِ قرآنیہ کے بعد احادیثِ نبویہ ﷺ انسانی زندگی کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں۔ وہ انسان حقیقت میں قرآن حکیم کا منکر ہے، جو احادیث کا منکر ہے“۔
اپنے خطاب کے دوران حضرت اقدس مدظلہ نے امام بُخاری کی حیاتِ مبارکہ، بخاری شریف کا پسِ منظر اور اس کے دنیا بھر میں اثرات و نتائج پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ نیز صحیح بخاری شریف کی اشاعت اور اسے نصاب کا حصہ بنانے کے حوالے سے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔
اس تقریب میں کثیر تعداد میں علما، نوجوان طلبا ، پروفیسرز، ڈاکٹرز، و کلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ حضرت اقدس مدظلہ کی دعا سے اس تقریب کا اختتام ہوا۔
رپورٹ: سید نفیس مبارک ہمدانی، لاہور