ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور اور پشاور یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کونفلکٹ سٹڈیز و پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹس کے باہمی تعاون سے 10 اکتوبر 2023ء بروز منگل مین ہال، انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کونفلکٹ سٹڈیز، پشاور یونیورسٹی میں "سماجی تشکیل میں عدم تشدّد کی اہمیت" کے عنوان سے ایک پروقار سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار کے مہمانِ مقرر ادارہ رحیمیہ کے صوبائی کوآرڈینیٹر پروفیسر انجینئر ساجد علی تھے۔
سیمینار کی صدارت ممبر رحیمیہ اکیڈمک کونسل پروفیسر فضل طارق نے فرمائی جب کہ ادارہ رحیمیہ کے ریجنل کوآرڈینیٹر جناب عمیر بابر زیدی، ڈائریکٹر پیس اینڈ کونفلکٹ سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر بلال شوکت نے بطور مہمانانِ اعزازی شرکت فرمائی۔
سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت جناب عبد السبحان نے حاصل کی۔ تلاوتِ قرآنِ حکیم کے بعد موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان مقرر نے فرمایا کہ ”آج پاکستانی سماج میں بے چینی اور بے اطمینانی کا دور دورہ ہے، خصوصاً نوجوان جو آبادی کا کم وبیش 60 فیصد ہے،بدترین بے یقینی کا شکار ہے“۔
اس صورت حال کے وجوہات بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ”معاشرے انسانوں کے درمیان باہمی تعلقات سے وجود میں آتے ہیں۔ وہ معاشرے جو ان باہمی تعلقات کو عدل وانصاف اور مجموعی انسانی مفاد کی اساس پر استوار کرتے ہیں وہ یقیناً ترقی کرتے ہیں اور جہاں بھی تعلقاتِ انسانی کا توازن برقرار نہیں رہتا ان معاشروں میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ آج چونکہ ہمارے ہاں مجموعی طور پر انسانوں کے درمیان حقوق وفرائض کی ادائیگی کا توازن برقرار نہیں رہا تو آج ہم زوال میں چلے گئے“۔
آپ نے تاریخ انسانی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”دنیا میں جب بھی معاشرے زوال کا شکار ہوئے ہیں وہاں حضرات انبیاء علیہم السلام نے معاشرتی سدھار اور سماجی تشکیل نو کی بڑی پرعزم اور نتیجہ خیز جدوجہد فرمائی ہے۔ امام الانبیاءحضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک زوال یافتہ معاشرے میں آنکھ کھولی۔ آپ ﷺ نے بعثت سے قبل ہی اس معاشرے کے مفاسد کے خلاف جدوجہد کا آغاز کردیا تھا اور پھر جب وحی کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ ﷺ نے مرحلہ بہ مرحلہ دینی فکر جو کہ انسانیت کے جملہ تقاضوں کی تکمیل سے عبارت ہے، کو سوسائٹی کی آواز بنایا“۔
مہمان مقرر کا کہنا تھا کہ ”اس راہ میں قدم قدم پر آپ ﷺ کا راستہ روکا گیا، مصائب وآلام کے پہاڑ توڑے گئے لیکن آپ ﷺ نے مکمل صبر واستقامت، برداشت اور عدمِ تشدد کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند رہ کر اس معاشرے کو جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صورت میں ایک ایسی اہل قیادت فراہم کی جس نے پہلے مرحلے میں میثاق مدینہ کی ریاست مدینہ قائم کی اور بعد ازاں مکہ فتح کرکے جزیرہ العرب میں فرسودہ سماج کی جگہ ایک صالح سماج تشکیل دیا جس کا سلسلہ آگے چل کر پوری دنیائے انسانیت تک دراز ہوا“۔
آپ نے مزید کہا کہ ”یہ سب دورزوال میں آپ ﷺ کی اس پرحکمت اور عدم تشدد پر کاربند رہتے ہوئے مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھنے کی حکمت عملی تھی جو بالآخر ایک نئے سماجی تشکیل کی صورت میں ظاہر ہوئی“۔
آخر میں آپ کا کہنا تھا کہ ”دورحاضر میں سب سے زیادہ ضرورت اسی چیز کی ہے کہ ہم سماجی تشکیل نو کے نکتہ نظر سے سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کریں اور جذباتیت اور اشتعال انگیزی سے گریز کرتے ہوئے عقل وشعور اور دینی فہم وبصیرت اور عدم تشدد کی بنیاد پر تعمیری اندازفکروعمل کو اختیار کرکے دین کی انسانیت دوست فکر کو معاشرے میں متعارف کروائیں تاکہ اس پر ایک صالح سماج کی تشکیل کا راستہ ہم وارہوسکے“۔
اس کے بعد طلباء نے سوالات و جوابات کے ذریعے مہمانان گرامی سے مزید استفادہ کیا۔
سیمینار کے آخر میں یونیورسٹی آف پشاور کے ممبر سینڈیکیٹ پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے ادارہ رحیمیہ کا اس سیمینار کے انعقاد پر شکریہ اداکیا اور اس طرز کے پروگرامات کو طلباء وطالبات کی ذہنی وفکری آبیاری کے لئے ناگزیز قرار دیا۔
(رپورٹ: مبارک آزاد ۔ پشاور یونیورسٹی)