ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کےباہمی اشتراک سے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ویڈیو کانفرنسنگ ہال میں 26 اکتوبر2023ء کو "سماجی تعمیرو ترقی میں انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کا کردار" کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیاگیا۔ جس کی صدارت ادارہ رحیمیہ کے ریجنل کوآرڈینیٹر سید عمیربابر زیدی نے فرمائی۔ اس سیمینار کے مہمان خصوصی ادارہ رحیمیہ کے صوبائی کوآرڈینیٹر پروفیسرانجینئر ساجد علی تھے جب کہ مہمانان اعزازی میں پروفیسر ڈاکٹر صفی الرحمان (ممبررحیمیہ ریجنل کوآرڈینیشن بورڈ) اور جناب عرفان اللہ (ڈائریکٹر آئی ٹی ۔ یونیورسٹی آف پشاور) شامل تھے۔
سیمینار کے آغاز میں طلباء میں علمی وفنی مہارت کے حصول کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر صفی الرحمان نے پریزینٹیشن دی۔ جس کے بعد سیمینار کے مرکزی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان مقرر کا کہنا تھا کہ ”سائنسی و فنی علوم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں لیکن دورحاضر میں کہ جب سائنس اور ٹیکنالوجی بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے جیسے ممالک کے عوام مجموعی طور پر ان ترقیات کے ثمرات سے محروم ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، جس کے اسباب کا تعین اور اس کے تدارک کی حکمت عملی پر سنجیدگی سے غوروخوص دور حاضر کا ایک ہم ترین تقاضا ہے“۔
آپ کا مزید کہنا تھا کہ ”قرآن حکیم نے ترقی یافتہ سوسائٹی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کے مطابق اس سماج میں امن عامہ، معاشی اطمینان (انسانی احتیاجات کی تکمیل کے لئے وسائلِ دولت کے عادلانہ انتظام کے ذریعے) اور وسائل رزق کی فراوانی کا ہونا ضروری ہے اور اس کے مقابلے میں زوال یافتہ معاشرے بھوک وافلاس اور خوف و بے اطمینانی کاشکار ہو تے ہیں“۔
مہمان مقرر نے مزید فرمایا کہ ”علوم وفنون کا استعمال بھی اسی انداز واسلوب کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جس کے نتیجے میں انسانوں کے لئے سہولتوں کی فراہمی کا نظام قائم کیا جائے تاکہ سماج امن اور معاشی خوش حالی کا گہوارہ بنے، بصورتِ دیگر علوم وفنون میں ترقی اور جدت کے فوائد چند مخصوص طبقات تک محدود ہوکر رہ جائیں گے اور مجموعی انسانیت خوف اور معاشی بدحالی کا شکار ہوجائے گی“۔
آخر میں آپ نے کہا کہ ”آج دنیائے انسانیت بالعموم اور وطن عزیز کی عوام بالخصوص جدید دور کی ترقیات کے مجموعی ثمرات سے اس لئے محروم ہے کیوں کہ ہم دین اسلام کی اُن اجتماعی تعلیمات سے عملاً کنارہ کش ہیں جن کوعمل میں لاکر ایک عادلانہ سماج تشکیل دیا جاسکتا ہے اور اسے صحیح معنوں میں امن و خوش حالی کاحقیقی آئینہ داربنایا جاسکتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا نوجوان طالب علم، دور کے علوم وفنون میں بھی مہارت حاصل کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کے نظامِ حیات کا سماجی تشکیل وتعمیر کے نکتہ نظر سے بھی مطالعہ کرے تاکہ وہ دینی فکر کی اساس پر اپنی علمی اور عملی صلاحیتوں کو کام میں لاکراپنے سماج کوصحیح معنوں میں دینی تعلیمات کا آئینہ دار، امنِ عامہ اور معاشی خوش حالی وترقی کا گہوارہ بنا سکے“۔
آخر میں جناب عرفان اللہ (ڈائریکٹر آئی ٹی ۔ یونیورسٹی آف پشاور) نے اپنے تکمیلی ریمارکس میں سیمینار کے انعقاد پر منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس طرز کی شعوری سرگرمیوں کو نوجوانانِ قوم کی ذہنی آب یاری کے لئے انتہائی ناگزیر قرار دیا۔
(رپورٹ: مبارک آزاد ۔ پشاور یونیورسٹی)