Description
ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کے ناظمِ اعلیٰ اور خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے مسند نشین حضرت مولانا مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی نے نشتر ہال پشاور میں ایک عظیم الشان اجتماع سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے "سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں معاشی خوشحالی اور قیامِ امن کے بنیادی تقاضوں" پر روشنی ڈالی۔
سیمینار میں علماء تاجر برادری اساتذہ پروفیسرز علماء کرام اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی.
سیمینار کی ترتیب درجہ ذیل تھی:
موضوع: سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں معاشی خوشحالی اور قیامِ امن کے تقاضے
تاریخ: 1 نومبر 2025
بوقت 2 بجے
صدارت پروفیسر فضل طارق
نظامت فقیر عامر
تلاوت قاری مقیم الحق
مہمان خصوصی حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد مدظلہٰ
مہمانان اعزازی
1)مولانا مفتی محمد مختار حسن مدظلہٰ
2) پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر عبد العزیز مدظلہ
3) پروفیسر ڈاکٹر تاج افسر مدظلہٰ
بمقام نشتر ہال پشاور
حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ: “آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے پندرہ سو برس بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا وہ سیاسی آزادی، معاشی خوشحالی، اور سماجی عدل و انصاف جو آپ ﷺ اور آپ کی جماعتِ صحابہؓ نے قائم کیا تھا، آج بھی ہمارے معاشروں میں موجود ہے یا مفقود ہوچکا ہے؟” انہوں نے کہا کہ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد صرف روحانی تربیت نہیں بلکہ دنیا میں عدل، امن، اور خوشحالی پر مبنی صالح نظامِ زندگی کا قیام تھا۔
آپ ﷺ نے عرب کے جاہلانہ و ظالمانہ معاشرے میں سچائی، امانت، اور خدمتِ خلق کے ذریعے اصلاحی جدوجہد کا آغاز کیا۔ حلف الفضول جیسی تنظیموں میں شمولیت کے ذریعے مظلوموں کا دفاع کیا اور نبوت کے بعد میثاقِ مدینہ کے ذریعے ایک منظم اور عادل ریاست کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں فتحِ مکہ کے موقع پر عفو و درگزر اور عدل و مساوات کے اصولوں سے پورے معاشرے میں اصلاح و استحکام پیدا کیا۔
حضرت نے مزید فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی جماعت نے سیاسی جبر، معاشی ناہمواری، سماجی ناانصافی، اور فکری انتشار کا خاتمہ کر کے انسانی تاریخ میں ایک مثالی نظام قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضور ﷺ کی سیرت سے انفرادی و اجتماعی زندگی کی تنظیم کا سبق حاصل کریں تاکہ دنیا میں حقیقی امن و انصاف قائم ہو۔
انہوں نے برطانوی دورِ غلامی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی معاشی لوٹ کھسوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی سامراج نے “لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی سے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں قوموں کو تقسیم کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کی تباہی کے نتیجے میں 68 ممالک وجود میں آئے۔ آج یہی روش جدید سامراج، خصوصاً امریکہ اور اس کے اتحادی، افغانستان، لیبیا، یمن، شام، اور فلسطین میں دہرا رہے ہیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مفتی مختار حسن نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے محض عبادات کا نہیں بلکہ معاشی انصاف، سماجی مساوات، اور قیامِ امن کا ایک جامع منشورِ حیات ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدینہ منورہ کا نظامِ حیات عدل، تعاون اور اخوت پر مبنی تھا اور آج ہماری تمام تر کوششوں کا مرکز یہی ہونا چاہیے کہ ہم سیرتِ طیبہ کے سنہری اصولوں کو اپنے دور کے مسائل کے حل کے لیے رہنما بنائیں
رپورٹ: شہاب الدین بنگش پشاور ڈویژن
