ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور کی بہاول نگر شاخ کے زیرِ اہتمام بلدیہ ہال، میونسپل کمیٹی بہاول نگر میں 16 جولائی 2023 بروز اتوار 6 بجے شام ایک شعوری سیمینار بعنوان "معاشرتی ترقی اور استحکام کے لیے قرآنی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت" منعقد ہوا۔ سیمینار کے مہمانِ خصوصی مولانا مفتی عبدالقدیر (ڈائریکٹر اکیڈمک ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ) اور مہمانِ اعزازی جناب قاضی شکیل احمد تھے۔ نظامت کی ذمہ داری مدثر ذوالفقار نے نبھائی اورتلاوتِ قرآنِ حکیم کی سعادت حافظ عمر فاروق نے حاصل کی۔
قاضی شکیل احمد کی صدارت میں ہونے والے اس سیمینار میں ادارہ رحیمیہ کا تعارف شاہد اقبال پاشا نے شرکاء کے سامنے بیان کیا۔
مولانا مفتی عبدالقدیر (ڈائریکٹر اکیڈمک ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ) نےخطبہ مسنونہ کے بعد موضوع پر راہنمائی دیتے ہوئے فرمایا،"معاشرہ انسانوں کےمل جل کر رہنے کا نام ہے۔ دین اسلام نے انسانی معاشرے کو بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب فضیلت دی ہے۔انسانی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے 4 بنیادی اصول ہیں۔ جو بھی معاشرہ ان اصولوں کو اپنائے گا، وہ کامیابی اور ترقی سے ہم کنار ہو گا۔
1۔ آزادی: انسانی معاشرے کی ترقی کا سب سے پہلا اصول آزادی ہے۔ انبیا علیہم السلام نے اپنے اپنے ادوار میں اپنی قوموں اور معاشروں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کروایا اور انسانی معاشروں کی آزادی ہی انبیا کا اولین مشن تھا۔ جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے اپنی قوم کو آزادی دلوائی۔ اسی طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قریش مکہ کے ظلم اور غلامی سے انسانوں کو آزاد کروایا۔ انبیا علیہم السلام کے اسی مشن پر چلتے ہوئے ہر دور میں علمائے حق اور حریت پسندوں نے اپنی قوموں کو سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزاد کروایا۔بالخصوص برعظیم پاک و ہند کی آزادی میں علمائے حق کا حریت پسندانہ کردار اقوام عالم کے لیے ایک نشانِ راہ ہے۔
2۔ عدل و مساوات: اِعدلُو ھُوَ اَقرَبُ لِلتقویٰ۔ قرآن حکیم نے انبیا کرام کی بعثت کا مقصد ہی انسانی معاشرے میں عدل و مساوات کو قرار دیا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ ؒنے اخلاقِ اربعہ میں عدل کو انسانیت کی بنیادی صفت قرار دیا ہے۔ کوئی انسانی معاشرہ عدل کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ جس معاشرے کا نظام عدل پر مبنی نہ ہو، وہ معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔
3۔ امن و امان: انسانی معاشرے کی ترقی میں تیسری چیز جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے، وہ امن و امان ہے۔ جس معاشرے میں امن و امان مفقود ہو جائے، اس میں خوف مسلط ہو جاتا ہے۔ انسانی جان و مال اور عزت کی حفاظت سب سے مقدم ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں اس پر بہت زیادہ زور دیا۔ قرآن حکیم نے سورۃ القریش میں قریشِ مکہ کے لیے امن و امان کو ان پر بطورِ احسان ذکر کیا ہے۔
4۔ معاشی خوشحالی: ترقی کا چوتھا اصول معاشی خوشحالی ہے۔ اسی سورۃ قریش میں اللہ تعالیٰ نے قریش پر معاشی خوشحالی کو بھی بطورِ احسان ذکر کرتے ہوئے فرمایا: الذِی اَطعمہُم مِن جُوع۔ وہی خدا ہے جس نے انہیں بھوک میں کھلایا۔ قرآن حکیم نے ایک ایسی بستی کا بطور مثال ذکر کیا ہے جس میں رزق کی فراوانی تھی اور ہر طرف سے ان پر رزق کی بارش ہو رہی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہم السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اہلِ مکہ کے لیے رزق کی فراوانی کی دعا کی۔ ایسے ہی رسول اللہ ﷺ نے بھی ہجرت مدینہ کے بعد اہلِ مدینہ کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ تعالیٰ ان کے پیمانوں میں برکت دے۔
جو معاشرے ان اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے، وہ معاشی بدحالی کا شکار ہو کر غلامی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
حضرت ربیع بن عامر رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے دربار میں جو تقریر کی، اس میں اِنہی اصولوں کو پیش کیا کہ ہم آپ کے ملک میں کس لیے آئے ہیں۔
1۔ ہم خود نہیں آئے بلکہ ہم بھیجے گئے ہیں
2۔ ہمارا مقصد انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ لا شریک کی غلامی میں دینا ہے۔
3۔ ہمارا مقصد باطل نظاموں کے شکنجے سے نکال سے انسانوں کو اسلام کے عدل و مساوات کے نظام میں لانا ہے۔
4۔ ہم انسانوں کو دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اسلام کے امن اور خوشحالی کے نظام میں لانا چاہتے ہیں۔"
مفتی صاحب نے مزید فرمایا،" اسلام کا ایک ہزار سالہ نظام اس بات پر گواہ ہےکہ جب تک مسلمانوں نے ان اصولوں پر اپنے معاشروں کو قائم رکھا، وہ دنیا میں سرخرو اور بلند رہے اور جب ان کو چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت میں گر گئے۔ یہ اصول عالمگیر اصول ہیں۔ جو قوم ان کو اختیار کرے گی، بظاہر وہ مسلمان نہ بھی ہو تو بھی دنیا میں ترقی ضرور کرے گی۔ اور اگر کوئی قوم بظاہر مسلمان ہوتے ہوئے ان اصولوں کو نظر انداز کرے گی تو وہ یہود کی طرح ذلت و مسکنت اور غلامی میں مبتلا ہو جائے گی۔ ان اصولوں کی روشنی میں ہم پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیں۔
کیا ہم آج حقیقی معنوں میں آزاد ہیں یا سامراجی اداروں کے غلام؟
کیا ہمارا نظام عدل انسانوں کو عدل و مساوات فراہم کر رہا ہے؟
کیا ہمارا معاشی نظام معاشی خوش حالی پیدا کر رہا ہے یا غربت و افلاس؟
کیا ہمارا سیاسی نظام امن و امان پر مبنی ہے یا خوف، بدامنی اور دہشت گردی پر؟
ان اصولوں کی روشنی میں ہم پارٹیوں اور جماعتوں سے بالاتر ہو کر اپنے معاشرے کا جائزہ لے لیں کہ ہمیں موجودہ دور میں کس لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو صحیح نظریہ اور سوچ کے ساتھ ان اصولوں پر اپنے معاشرے کو استوار کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔"
موضوع کے آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہوا جس میں شرکاء نے سوالات کے ذریعے موضوع کے حوالے سے اپنی تشفی کی۔
رپورٹ: محمد آصف حنیف۔ بہاولنگر