
Description
رحیمیہ انسٹیٹیوٹ آف قرآنک سائنسز کراچی کیمپس میں 9 فروری 2025ء بروز اتوار ایک پر وقار دعوتی سیمینار بعنوان "قیادت کا بحران: انسان دوست اور باوقار قومی تعمیر و تشکیل کا اہم چیلنج" منعقد ہوا۔ سیمینار کے مہمانِ خصوصی حضرت اقدس شاہ مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ (ناظم اعلیٰ ادارہ رحیمیہ) اور مہمانانِ اعزازی حضرت مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی (صدر ادارہ رحیمیہ) اورحضرت مفتی محمد مختار حسن (صدر انتظامیہ ادارہ رحیمیہ) تھے۔
سیمینار میں ممتاز دانش وروں، علمائے کرام، اور نوجوان اسکالرز نے شرکت کی۔ سیمینار کی صدارت جناب واصف ریاض ایڈووکیٹ نے کی، جب کہ نظامت کے فرائض جناب اسد اقبال نے انجام دیے۔ تقریب کا آغاز حافظ احمد شعیب نے قرآنِ حکیم کی تلاوت سے کیا۔
رحیمیہ انسٹیٹیوٹ کے فکری و تعلیمی کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے مہمانِ اعزازی مولانا محمد مختارحسن (صدر انتظامیہ ادارہ رحیمیہ) نے اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ادارہ 2001 میں قائم ہوا اور اس کا بنیادی مقصد علمی مکالمے اور فکری بیداری کے ذریعے اسلامی علوم کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق فروغ دینا ہے، تاکہ نوجوان نسل میں شعور، بصیرت اور قیادت کے جوہر اجاگر کیے جاسکیں۔
سیمینار میں برعظیم پاک و ہند کی مسلم حکمرانی کے 857 سالہ دور، انگریزوں کی آمد، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی، سماجی، اور علمی زوال پر تفصیل سے گفتگو کی گئی۔ مقررین نے وضاحت کی کہ مسلم حکمرانوں کی بے بصیرتی اور باہمی نااتفاقی نے کس طرح برصغیر میں استعماری تسلط کی راہ ہموار کی، اور کس طرح ہمارے سیاسی و تعلیمی نظام میں ایسے نقوش چھوڑے گئے جو آج بھی ہمارے قومی بحرانوں کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ اس موقع پر عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے نظریات، عدالتی نظام میں سچ کو جھوٹ کے پردے میں چھپانے کے رجحان، تعلیم و معیشت میں نظریاتی و فکری ابہام، اور سیاسی بدانتظامی جیسے امور پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
سیمینار کے کلیدی مقرر مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ نے قیادت کی بنیادی خصوصیات پر سیرحاصل گفتگو فرمائی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قیادت صرف اقتدار کے حصول کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کے لیے واضح فکر، سیاسی بصیرت، سماجی و معاشی شعور، انسان دوستی، اور تاریخ کا مکمل ادراک ضروری ہے۔ انہوں نے اسلامی تاریخ کے تناظر میں قیادت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے قیادت کا دیانت دار، باصلاحیت، اور حقیقت پسند ہونا لازم ہے۔ انہوں نے فرقہ واریت، تعلیمی پسماندگی، معاشی استحصال، اور سیاسی افراتفری جیسے مسائل کو قومی تعمیرِ نو میں سب سے بڑی رکاوٹیں قرار دیا اور نشاندہی کی کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب نہیں ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں ملکی مقننہ اور عدلیہ میں فکری انتشار پیدا ہوا۔
اس فکری نشست میں ان مسائل کے حل کے لیے نہ صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، بلکہ جدید دنیا کے بدلتے ہوئے تناظر میں قابلِ عمل تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ قیادت کی تربیت، نوجوانوں میں شعور کی بیداری، تعلیم کے جدید اور اسلامی اصولوں کا امتزاج، اور قومی شناخت کی ازسرِ نو تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس موقع پر نوجوانوں کو تلقین کی گئی کہ وہ اپنی فکری صلاحیتوں کو اجاگر کریں، سماج میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے خود کو تیار کریں، اور ایک ایسی قیادت کو پروان چڑھائیں جو نہ صرف دیانت دار ہو بلکہ عوام کی حقیقی نمائندگی بھی کرے۔
اس سیمینار میں انجینئرآفتاب احمد عباسی، انجینئر وسیم اعجاز، انجینئر جان محمد گدارو,پروفیسر نعمان باقر نقوی اور دیگرمقامی ذمہ داران نے بھی شرکت کی۔ سیمینار کا اختتام مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی پراثر دعا سے ہوا، جس میں پاکستان کی خوشحالی، قیادت کی بہتری، اور امتِ مسلمہ کی ترقی و کامیابی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ یہ فکری و علمی نشست 11:55 PM پر اپنے اختتام کو پہنچی۔
رپورٹ: مجلس استقبالیہ سیمینار