مورخہ 14 اگست 2024ء بروز بدھ رحیمیہ انسٹی ٹیوٹ آف قرآنک سائنسز(ٹرسٹ)، کراچی کیمپس میں ایک شعوری سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ مذکورہ سیمینار دو موضوعات پہ مشتمل تھا۔ پہلا موضوع "قومی آزادی کے گمنام ہیروز" اور دوسرے موضوع کا عنوان "عصرِ حاضر میں درپیش چیلنجز، وجوہات اور ایک خوش حال پاکستان کے لئے دستیاب مواقع" تھا۔
اس سیمینار کی صدارت انجینئر جان محمد گدارو(ریجنل کوآرڈینیٹر، ریجن لوئر سندھ) نے کی۔ سیمینار کے سیکریٹری کے فرائض جناب اسد اقبال (ریجنل ناظم دعوت ریجن لوئر سندھ) نے سر انجام دیئے۔
مہمان اعزازی پروفیسرنعمان باقرنے" آزادی کے گمنام ہیروز" کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے حاضرین کو حقیقی مسلم قیادت کے کردار کے بارے میں راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا،
" آج ہمارے سب تاریخ دان ولی اللہی تحریک کے قائدانہ کرادر اور عمل کی اہمیت کو تسلیم کررہے ہیں۔ جس نے ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ پر محیط اس پوری جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ ولی اللہی جماعت کے زیر قیادت 1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی غیر قانونی حکمرانی کے دور کا خاتمہ ہوا۔ اسی جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے مسلمانوں نے سیاسی شعور حاصل کیا۔ بر عظیم کو نئی جدید قومی قیادت میسر آئی اور اسی قیادت نے اگلے دور میں پہ درپے تحریکات برپا کر کے سامراجی طاقت کو ہندوستان چھوڑنے پہ مجبور کر دیا۔ اس جماعت نے ٹیپو سلظان سے لے کر جامعہ ملیہ تک ہر قوم پرور تحریک کی سرپرستی کی۔ عہد بہ عہد قربانیوں کی لازوال تاریخ مرتب کی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریکِ ریشمی رومال کے منظم نظام کار نے تو برطانوی سلطنت اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کو ششدر کر دیا۔"
مہمان اعزازی نے مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا محمد صادق سندھیؒ اور مولانا تاج محمود امروٹیؒ وغیرہ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کی تاریخ سے واقفیت اور شعور کو قومی وجود کی بقا و ارتقا کے لیے لازم قرار دیا۔
ازاں بعد انجینئرآفتاب احمد عباسی (مرکزی نائب صدر ادارہ رحیمیہ) نے "عصر حاضر کے چیلنجز،اسباب اور ایک خوش حال پاکستان کے لئے دستیاب مواقع" کے موضوع پر بات کرتے ہوئے سامعین سے کہا کہ،
"یہ تو خوشی کی بات ہے کہ آج کوئی بیرونی تجارتی کمپنی یا ملک ہم پر براہ راست مسلط نہیں ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دیگر آزاد ممالک کی طرح ہمارا پیار وطن مکمل آزادی، سیاسی طور پر امن و امان، معاشی خوش حالی و اطمینان اور سماجی سطح پر عدل و مساوات، میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو نہیں پا سکا۔ اس کے پیچھے بنیادی چیلنج یہی رہا کہ ملک کا سسٹم اور نظام اس طور پہ تعمیر و تشکیل ہو ہی نہیں پایا۔ کیونکہ جن کے حوالے ملک کی باگ ڈور دی گئی وہ اس قابل اور اہل بھی نہ تھے اور نہ ان میں وہ اخلاص و قومی ہمدردی تھی کہ اس چیلنج کو حل کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 77 سالوں سے قوم نے افراد ، اداروں اور مختلف سیاسی جماعتوں کو آزما لیا مگر ملک میں مسائل و چیلنجز حل ہونے کی بجائے مزید بڑھے۔ حکمرانی کرنے والوں کے اثاثوں و دولت میں روز افزوں ترقی ہوتی رہی۔ آج ان مسائل میں امید کی کرن نوجوان ہیں جو کسی بھی معاشرے کی محرک قوت ہوتی ہے اور ان کا کردار پوری دنیا میں قابل قبول ہے۔ اگر آج یہ نوجوان سیرتِ رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں چیلنجز کا ادراک کر لے، ان چیلنجز کے Root Cause کو سمجھ لے اور پھر ان چیلنجز کے حل کا ایک مکمل سسٹم بنانے کی صلاحیت و اہلیت اپنے اندر پیدا کر لے تو وہ دن دور نہیں جب یہ ملک بھی ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہو کر باوقار قوموں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔"
آپ نے مزید فرمایا کہ،"قوم کی ترقی کے لیے خیالات میں اتحاد،اتفاق اور سیاسی بصیرت و شعور ضروری ہے۔ شعور ایسی طاقت ہے جو نوجوان کو آلہ کار بننے سے بچاتا ہے۔ نوجوانوں کو حالات و واقعات کے دھارے میں بہنے کے بجائے غور و فکر سے کام لے کراثرات و نتائج پر غور کرنا چاہیے۔"
موضوعات کے بعد سوال و جواب کا بھی سیشن رکھا گیا تھا۔ سوال جواب کے وقفے میں نوجوانوں نے بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موضوعات سے متعلق سوالات کیے اور مہمان خاص آفتاب احمد عباسی صاحب نے نوجوانوں کے سوالات کے تشفی آمیز جوابات دیے۔
صدر نشست جان محمد گدارو صاحب کی دعا سے سیمینار کی تکمیل ہوئی ۔
پروگرام کے سامعین میں اکثریت نوجوان گریجویٹس اور کالجز کے طلبہ پر مشتمل تھی۔
رپورٹ: اسد اقبال۔ کراچی