۞ أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا۟ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌۭ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَـٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ٧٥
(اب کیا تم اے مسلمانو! توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمھاری بات، اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا اللہ کا کلام، پھر بدل ڈالتے تھے اس کو جان بوجھ کر، اور وہ جانتے تھے۔)
گزشتہ آیت میں یہودیوں کے دلوں کی سختی کا حال بیان کیا گیا تھا اور بتلایا تھا کہ وہ پتھر دل یا اُس سے بھی زیادہ سخت دل ہوچکے ہیں۔ اس سبب سے انھوں نے بہت سے غلط اعمال کیے۔ اُن کے خراب اعمال کی تفصیل آیت 75 تا 102 میں بیان کی گئی ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں اُن کی سب سے پہلی خرابی بیان کی جا رہی ہے کہ انھوں نے اللہ کے کلام اور کتاب کو سمجھنے کے باوجود اُس میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا۟ لَكُمْ : اس آیتِ مبارکہ میں سب سے پہلے مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ کیا تم یہ لالچ رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمھارے دین پر ایمان لے آئیں گے اور مسلمان ہوجائیں گے؟ مدینہ منورہ میں صحابہؓ کی خواہش تھی کہ یہودی بھی اس دین کو قبول کرلیں۔ اس کے لیے انھیں دعوت دی جاتی تھی۔ اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ اس طرح کی طمع اور خواہش مت رکھو۔ اس لیے کہ ان کے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ یہ اللہ کے کلام میں تحریف کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ جو سمجھ بوجھ کے باوجود اللہ کے پاک کلام میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ تمھاری بات کیسے مانیں گے؟ اور تمھارے دینِ اسلام پر کیونکر ایمان لائیں گے؟
وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌۭ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَـٰمَ ٱللَّهِ : ان یہودیوں میں دو طرح کے لوگ ہیں: ایک وہ جو اللہ کے کلام تورات کے عالم اور اس کی سمجھ رکھنے والے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو اَن پڑھ اور اُمی ہیں۔ کتاب کا علم نہیں رکھتے۔ دلوں کی سختی کے سبب ان دونوں طبقوں کی حالت کی خرابی کی نوعیت مختلف ہے۔ پہلے اہلِ علم طبقے پر مشتمل فریق کی خرابی بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں اَن پڑھ لوگوں کی خرابی کا ذکر ہے۔
اللہ کے کلام کو سننے سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں، جنھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ’’اے موسیٰ! اگر ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے تو ہم وہ گفتگو سننا چاہتے ہیں، جب آپ اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انھیں اپنے ساتھ طور پہاڑ پر لے گئے اور وہاں انھیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کاموں کا حکم دیا ہے اور اِن کاموں سے روکا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک فریق نے آکر بنی اسرائیل کے سامنے اُن باتوں میں تحریف کرکے بیان کیا۔ یا کلام اللہ کے سننے سے مراد تورات ہے، جو اللہ کا کلام ہے۔ اسے یہ لوگ سنتے ہیں اور اس میں تحریف کرتے ہیں۔
ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ : یہودی اہلِ علم طبقے کی خرابی یہ ہے کہ تورات میں بیان کردہ اللہ کے کلام کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد اُس میں اپنی ذاتی خواہشات اور خود ساختہ نظریات کے مطابق لفظی اور معنوی تحریف کرتے ہیں۔
تحریف کی حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کے علما و اَحبار نے اپنی عقل اور اپنے حالات کے مطابق اپنی ترقیات کے لیے کچھ نظریات و اَفکار گھڑ لیے تھے۔ پھر وہ کوشش کرکے تورات کی آیات میں دور دراز کی تاویلات کرکے اپنے ان نظریات و اَفکار کو ثابت کرتے تھے۔ حال آں کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کتاب اللہ کی آیات کا اصل مدلول اور مفہوم کیا ہے۔ اس کے باوجود اُس کے ترجمے اور مفہوم میں کچھ کلمات کا اضافہ کرکے تبدیلی پیدا کردیتے تھے اور اُسے عام لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے۔ اور انھیں یہ باور کراتے تھے کہ وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں، وہ اللہ کی کتاب میں موجود ہے اور وہ کتاب اللہ پر صحیح عمل کرنے والے ہیں۔ عام طور پر اُن کی یہ عادت بن چکی تھی۔ تورات کے اصل نسخوں کو وہ عوام سے دور رکھتے تھے اور انھیں اپنے مراکز میں محفوظ اور مقفل رکھا جاتا تھا۔ اُن ترجموں کی اپنی خواہشات کے مطابق شروح اور حواشی لکھے جاتے۔ اس طرح دور دراز کے علاقوں میں اُن کی تحریف شدہ باتیں پھیل گئیں۔ پھر جب جالوت اور بُختِ نصر کے حملوں کے نتیجے میں ان کے مراکز تباہ و برباد ہوئے تو تورات کے اصل نسخے بھی اُس کی زد میں آئے۔ تو اب اُن کے لیے تورات کی اصل عبارت اور اُن میں اضافہ شدہ حواشی اور شروح میں فرق و امتیاز پیدا کرنا مشکل ہوگیا۔ ان کے دلوں کی سختی سے کلامِ الٰہی میں تحریفات کی یہ وبا اور خرابی ان کی عادت بن گئی۔
فائدہ: امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں کتابِ مقدس قرآن حکیم پر مشتمل اللہ کا کلام آج بھی مِن و عَن محفوظ ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ علمائے اسلام اور سلف صالحین نے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی کہ مصحفِ قرآنی میں کلماتِ قرآنی کے علاوہ ایک بھی زائد کلمہ تحریر کیا جائے۔ یہاں تک کہ سورتوں کے نام اور آیاتِ قرآنی پر لگی حرکات و سکنات، اعراب اور نقطوں میں بھی کوئی کمی بیشی کسی صورت گوارا نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ علمائے اسلام کو یہودیوں کی اُن تحریفات کا علم تھا کہ جو تورات کی اصل کتاب کے ساتھ زائد تشریحی جملوں اور اضافہ شدہ حواشی کے لکھنے سے پیدا ہوئی تھی۔ یوں اصل کلام اللہ محفوظ نہیں رہا۔ تورات محرف شدہ ہوگئی۔
قرآن حکیم کی حفاظت کا ایک اَور سبب یہ بھی ہے کہ یہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ رہا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تمام مساجد میں تراویح کی سنت ادا کی جاتی ہے۔ یہ عمل مبارک اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرفاروقؓ کے قلب میں الہام کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں قرآن حکیم کے حفظ کا ذوق و شوق پیدا ہوا اور قرآن حکیم سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتا رہا۔ بعض لوگ تراویح کی سنت کو ’’بدعتِ عمریہ‘‘ کہہ کر رد کرتے ہیں، یہ لوگ وہ ہیں جن کے دلوں میں دراصل قرآن داخل نہیں ہوا اور وہ لوگ تراویح کی وجہ سے قرآن کی حفاظت کو صحیح طور پر نہیں سمجھ پائے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…