7؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آج سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم انجینئرنگ کے علم کو علم سمجھتے ہیں۔ فزکس اور کیمسٹری کو ایک علم سمجھتے ہیں۔ میڈیکل سائنسز کو ایک علم سمجھا جاتا ہے اور بڑے ذوق شوق سے اس علم کے حصول کی طرف اپنی نوجوان نسل کو متوجہ بھی کرتے ہیں اور پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں، لیکن کس قدر افسوس ہے کہ علومِ نبوت کو علم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ دورِ زوال کی سب سے بڑی لعنت ہے، جو آج ہم پر مسلط ہے۔ کسی آدمی کو اُردو میں کوئی دو چار دینی مسئلے سمجھ آگئے، یا اسلام کی نماز روزہ کی کوئی عمومی باتیں اُس نے پڑھ لیں، یا کوئی پانچ چھ نمبر بیان کرنے آگئے تو وہ اپنے آپ کو دینی علم کا علامہ سمجھتا ہے۔ اب وہ جو چاہے لوگوں کے سامنے دینِ اسلام کے نام پر گفتگو کرے، ممبرِ رسولؐ پر بیٹھ کر جو مرضی زبان سے نکالے، فرقہ واریت پھیلائے، آگ لگائے، مفادات اٹھائے، شکل و شباہت عالموں کی بنا لے، اب اس علامہ صاحب کے خلاف کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔
دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں، کالجز، ہمارے مدارس، مسجدیں اور ہماری خانقاہیں علم کا محض تعارف کراتی ہیں۔ ٹھوس علم نہیں سکھاتیں۔ جب سے سمسٹر سسٹم آیا ہے، اس نے تو ویسے ہی علم کی صلاحیت اور استعداد ختم کر کے رکھ دی ہے۔ ایک سمسٹر میں بڑی مشکل سے چار مہینے پڑھاتے ہیں۔ اس میں ایک کتاب یا ایک شعبۂ علم سے متعلق ابتدائی تعارف کرایا جاتا ہے۔ ٹھوس علم نہ اُستاد کے پاس ہوتا ہے اور نہ شاگرد کے پاس۔ علم کے تمام پہلوؤں کا بڑا گہرا تعلق پریکٹیکل کے ساتھ ہوتا ہے۔ محض نظریات و افکار رَٹ لینے سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ آپ میں وہ علم تب رچے بسے گا کہ جو کچھ پڑھا ہے، اس کا پریکٹیکل بھی کریں۔ اس علم کے استعمال کرنے میں اگر کوئی غلطی ہو تو اُسے اساتذہ اور ماہرین کی صحبت میں سیکھا جائے۔ لیکن یہاں تو استاد بھی کرائے کا ہوتا ہے۔ آدھا پونا گھنٹہ لیکچر دینے کے لیے آتا ہے کہ اس کے پیسے لینے ہیں اور بس۔ طالبِ علموں کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے، وہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ استاد سے سوال کرنا تو ہمارے تعلیمی اداروں میں جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ استاد کے سامنے بدتمیزی شمار ہوتا ہے کہ آپ سوال کرکے بات سمجھنا چاہتے ہیں۔
الحمدللہ! مجھے اس ملک کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کا موقع ملا ہے۔ طلبا اور اساتذہ سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہاں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی سوال کرسکے۔ یہ تو سکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوںکا حال ہے۔ مدرسوں میں بھی علما اور مفتیانِ کرام کا تقدس آڑے آتا ہے۔ وہاں تو مذہب کے نام سے تقدس کی ایک اَور چادر بھی چڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ آپ سوال نہیں کرسکتے۔ بھائی! جب سوال نہیں کریں گے تو بات کیسے سمجھ میں آئے گی؟ علم کیسے منتقل ہوگا؟ آج ہماری یونیورسٹیوں، کالجز اور مدارس میں عام طور پر علم نام کی چیز نہیں رہی۔ جہالت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ڈگریاں ہیں، علم نہ دارد۔ یاد رہے کہ جن قوموں کے پاس ٹھوس علم نہیں ہوتا، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔‘‘
Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences