

عَنْ اِبن مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّﷺ: ’’إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّۃِ، إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَافعَلْ مَاشِئْتَ‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3483)
(حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک انبیائے سابقین کی تعلیمات میں سے جو بات لوگوں تک پہنچی ہے کہ اگر تجھ میں حیا نہیں تو جو تیرا جی چاہے کرتا پھر‘‘۔)
حیا انسان کی ان اچھی عادات میں سے ہے جو اس کو بُرے کاموں سے روکتی ہیں اور اچھے کاموں کی طرف راغب کرتی ہیں۔ ’’حیا‘‘ کا لغوی معنی ’’کسی کام کو کرنے میں جھجک محسوس کرنا‘‘ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان جب کوئی کام کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ یہ کام کرنا درست ہے یا نہیں۔ غور کرتا ہے کہ شرعی لحاظ سے یہ کام کرنا چاہیے کہ نہیں۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی کا سبب تو نہ ہوگا۔ اس سے کسی قسم کا کوئی سماجی مسئلہ تو پیش نہیں آجائے گا۔ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوگی، کسی بداخلاقی اور بے حیائی کا تو وہ مرتکب نہیں ہوجائے گا۔ اس طرح کے سوالات پر جب انسان غور کرتا ہے اور اس کو اپنے ضمیر سے اطمینان بخش جواب ملتا ہے تو پھر وہ اس کام کو کرتا ہے۔
رسولﷺ کے فرمان کے مطابق جس کو حیا کا یہ شعبہ مل گیا تو اس کی زندگی کا رُخ درست ہوجاتا ہے، اور اس کے زیادہ تر فیصلے درست ہوتے ہیں اور وہ بہت سی غلطیوں، گناہوں اور سماج میں فساد برپا کرنے سے بچ جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے انسان کے اس فطری جذبے کو اس کی ہدایت، صلاح اور اچھے اعمال کا سبب قرار دیا۔
اس کے برعکس وہ شخص جو کوئی کام کرنے سے پہلے مذکورہ سوالوں پر غور کرنے کو نظرانداز کر دیتا ہے اور محض اپنی خواہش، اپنے ارادے اور اپنی کسی بھی غرض کو سامنے رکھ کر کام کرتا ہے اور بلاجھجک، بے دھڑک کام کرتا ہے، چاہے اس سے کوئی شرعی تقاضا نظرانداز ہوجائے ،چاہے معاشرے کو پریشانی لاحق ہو، چاہے اس کے قریبی اعزہ، رشتہ داروں کے ساتھ اس کو بدسلوکی کرنی پڑے اور کوئی معاشرتی اور خاندانی فساد برپا ہو، وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا تو جس کا یہ رویہ ہو، رسول اللہﷺ کی اس حدیث کے مطابق وہ بے حیا شخص غلط راستے پر ہے۔ گویا وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جس کو نہ تو شریعت کی پرواہ ہے اور نہ ہی انسانوں اور معاشرے کی کوئی پرواہ ہے۔ تو جب اس میں اس قسم کا منفی رویہ وجود میں آجاتا ہے تو پھر اس سے کسی بھی بُرے کام کی توقع کی جاسکتی ہے۔
رسول اللہﷺ کی اس حدیث کے مطابق ہر انسان کو دیگر انسانوں سے متعلق ہر معاملے میں اس کی پرکھ کرنی چاہیے اور اس کو سوچنا سمجھنا چاہیے کہ وہ کام درست ہے یا غلط، جب ان سوالات کا اطمینان بخش جواب مل جائے تو پھر اس کام کو کرنا چاہیے، ورنہ انسان سے مختلف غلطیوں کے سرزد ہونے کا اِمکان ہے۔

Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
علمائے دین کا دنیاپرستوں کی قربت کا نتیجہ (2)
عَن ابنِ عبّاسؓ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ’’إنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِيْ سَیَتَفَقَّہُوْنَ فِي الدِّیْنِ، وَ یَقْرَئُ ونَ الْقُرْآنَ، وَیَقُوْلُونَ: نَأتِي الْأُمَرَائَ فَنُصِیبُ مِنْ دُنْیَاھُمْ، وَ نَعْتَزِلُہُمْ بِدِیْنِنَا، وَ لَا…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عبادات اور اَخلاقیات کا باہمی ربط
عَنْ أبِي ہُرَیْرَۃَ، أِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: ’’أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟‘‘ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِینَا مَنْ لا دِرْھَمَ لَہُ، وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: ’’إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي، یَأْتِي یَ…