گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو تورات میں دینِ حنیفی کے بنیادی اُمور عدل و احسان پر مشتمل قوانین دیے گئے تھے، انھوں نے اس میں تفریق پیدا کی، چند مذہبی رسومات اپنا لیں اور سماجی زندگی کے اجتماعی حقوق کو نظرانداز کرکے اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے اور گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے۔
دینِ حنیفی میں دو بنیادی علم ہیں: ایک تصحیحِ عقائد کے ساتھ تہذیبِ نفس اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے تہذیبِ اَخلاق کرنا ہے، جسے اصطلاح میں ’’احسان‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرے علم کا تعلق اجتماعی حقوق کے ساتھ ہے، گھریلو زندگی، محلے، بستی، ملک، قوم کے قومی اور بین الاقوامی نظام کے ساتھ ہے، جسے اصطلاح میں ’’عدل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (-16النحلـ: 90)
بنی اسرائیل کو بھی تورات میں ان دونوں علوم کی اَساس پر دینِ حنیفی کے اُصولوں کا پابند کیا گیا تھا۔ چناں چہ ان سے ان دونوں علوم کی پابندی کے حوالے سے دو میثاق اور عہد نامے لیے گئے تھے۔ اگلی آیات (83-84) میں ان دونوں عہود و مواثیق کا ذکر ہے۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ (اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد و میثاق لیا): انسانی سماج معاہدات سے عبارت ہے۔ عہد و میثاق کے ذریعے سے کسی قوم کی ترقی کا پروگرام نافذ کیا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل سے پہلا میثاق تہذیبِ نفس کے حوالے سے بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی سے متعلق تھا۔ اس عہد کے مطابق اُن پر لازم تھا کہ وہ درجِ ذیل اُمور کو اپنی زندگی کی تہذیب و ترتیب کے لیے اختیار کریں:
1۔ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ (کہ عبادت نہ کرنا‘ مگر اللہ کی): دینِ حنیفی کی بنیاد ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت اور صرف اُسی ذاتِ واحد کی عبادت پر استوار ہے۔ اس لیے تہذیبِ نفسِ انسانی کے لیے پہلا بنیادی کام یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اَور کی غلامی اختیار نہ کی جائے۔ صدقِ دل کے ساتھ اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت پر پختگی کے ساتھ ایمان و ایقان رکھا جائے اور اُسی کی عبادت کی جائے۔
2۔ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَانًۭا وَذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ (اور ماں باپ سے سلوک نیک کرنا، اور کنبہ والوں سے، اور یتیموں اور محتاجوں سے): اللہ کے ساتھ سچا تعلق قائم کرنے کے بعد انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا تہذیبِ نفس کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ ان میں سب سے پہلا حق اپنے والدین کا ہے کہ جن کے ذریعے سے انسان اس دنیا میں آیا اور انھوں نے اسے پالا پوسا اور بڑا کیا ہے۔ والدین کے بعد اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم ہے۔ اُن کے بعد سب سے بڑا حق سوسائٹی کے پِسے ہوئے طبقات؛ یتیم اور مسکین کے حقوق ادا کرنا ہے۔ تہذیبِ نفس اور سلوک و احسان میں حقوق اللہ، حقوقِ والدین اور حقوقِ انسانیت کا بڑا بنیادی کردار ہے۔ اس کے بغیر تہذیبِ نفس اور احسان کی سچی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔
3۔ وَقُولُوا۟ لِلنَّاسِ حُسْنًۭا (اور کہیو سب لوگوں سے نیک بات): مذکورہ بالا حقوق کی ادائیگی کے بعد تمام انسانیت کی بھلائی کے لیے اچھے خیالات کا اظہار اور اُن کے ساتھ اچھی گفتگو، بہترین مکالمہ اور اُن کی دل جوئی ضروری ہے۔ یہ بات انسانی حقوق میں سے ہے۔ تہذیبِ نفس کے لیے انسانیتِ عامہ کا احترام کرنا اور اُن کی بھلائی کی فکر اور سوچ رکھنا اور اُس کا اظہار کرنا انسانیت کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے۔
4۔ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ (اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو): حقوق اللہ اور حقوقِ انسانیت ادا کرنے کے لیے دو بنیادی اُمور ضروری ہیں:
(۱) ایک اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر صرف اُسی کے لیے نماز ادا کرنا۔ باجماعت نماز کا ایسا اجتماعی نظام قائم کرنا کہ جس کے ذریعے سے انسانی دلوں میں اللہ کے سامنے مناجات کرنے کا سلیقہ پیدا ہوجائے اور اپنی زندگی کے تمام اُمور میں اُسی سے ہدایت کا سیدھا راستہ حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اور انعام یافتہ حضرات؛ انبیاؑ، صدیقین، شہدا اور صالحین کے سیدھے راستے پر چلنے کی طلب اور تڑپ کا پیدا ہونا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ حقوقِ انسانیت کی ادائیگی کے لیے اپنی کمائی ہوئی محنت میں سے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا، جسے ’’زکوٰۃ‘‘ کے نظام کی صورت میں نافذ کیا گیا ہے۔ اس میں وہ تمام فرض اور نفل پر مشتمل مالی صدقات و خیرات شامل ہیں، جن میں پِسے ہوئے طبقات کے حقوق کی ادائیگی کی صورت پیدا ہو۔
دینِ حنیفی میں نماز اور زکوٰۃ ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ حقیقی نماز دراصل وہی ہے، جس میں یتیم و مسکین کے حقوق ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اور حقوقِ انسانیت کے لیے مال خرچ کرنے میں نفس کی پاکیزگی تبھی ہوتی ہے، جب اُس کے ساتھ اللہ کی رضا کا جذبہ موجود ہو، جو کہ نماز سے پیدا ہوتا ہے۔امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’اسی لیے قرآن حکیم کے بہت سے مقامات میں زکوٰۃ کو نماز اور ایمان کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2) جیسا کہ سورت البقرہ، الماعون اور المدثر وغیرہ میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ (پھر تم پھرگئے مگر تھوڑے سے تم میں، اور تم ہو ہی پھرنے والے): بنی اسرائیل سے تہذیبِ نفس اور صفتِ احسان پیدا کرنے کے لیے درجِ بالا اُمور پر عہد و میثاق کیا گیا تھا، لیکن انھوں نے ان حقوق کی ادائیگی پر پورے طور پر توجہ نہیں دی اور اس میثاق کی خلاف ورزی کی۔ اس طرح چند تھوڑے لوگوں کے علاوہ باقی لوگ تہذیبِ نفس اور عمدہ اَخلاقیات سے عاری ہوگئے، جو زوال کا سبب بنا۔ ملتِ موسوی، جو ایک زمانے میں سب سے ترقی یافتہ قوم تھی، اَخلاقیات سے عاری ہوگئی اور تہذیبِ نفس سے محروم ہو کر انسانیت دشمنی کے راستے پر اُتر آئی، جس کی تفصیل اگلی آیت (84)میں آرہی ہے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…