امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
[توحید کے ان آخری دو مرتبوں کی مخالف جماعتیں]
’’... توحید کے ان آخری دونوں مرتبوں (1۔ آسمانوں اور زمینوں کی حکمرانی 2۔ اور اللہ کے علاوہ کوئی اَور عبادت کا مستحق نہیں) کے بارے میں کچھ انسانی جماعتیں اختلاف رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں کا تجزیہ کیا جائے تو اُن کے بڑے تین فرقے ہیں:
(1) نجومی: یہ لوگ کہتے ہیں کہ ستارے عبادت کے مستحق ہیں۔ اُن کی عبادت دنیا میں نفع دیتی ہے۔ اپنی حاجتیں ان ستاروں کے سامنے پیش کرنا برحق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تحقیق کی ہے کہ:
(الف) انسان کی نیک بختی اور بدبختی، انسان کی صحت اور بیماری اور یومیہ ہونے والے حوادث و واقعات میں ان ستاروں کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
(ب) ان ستاروں میں عقل رکھنے والی روحیں کام کرتی ہیں، جو اِن ستاروں کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ روحیں اپنی عبادت کرنے والوں سے غافل نہیں ہیں۔
اس طرح انھوں نے ستاروں کے نام پر بڑی عمارتیں تعمیر کیں اور اُن کی عبادت کی۔
(2) مشرکین: یہ لوگ کائنات کے بڑے بڑے کاموں کے عالم گیر نظم و نسق کے حوالے سے تو مسلمانوں کے موافق ہیںاور اس میں بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قطعی اور حتمی حکم صحیح ہے۔ وہ اللہ کے سوا کسی اَور کو حکم دینے کا اختیار نہیں دیتے، وہ باقی درجِ ذیل اُمور میں مسلمانوں سے موافقت نہیں رکھتے:
(الف) ان کا کہنا ہے کہ اُن سے پہلے ایسے نیک لوگ گزرے ہیں، جنھوں نے اللہ کی عبادت اور اُس کا قرب حاصل کیا تو اللہ نے خود انھیں اُلوہیت کا لباس پہنا دیا۔ اس طرح وہ نیک لوگ باقی مخلوق میں سے خود عبادت کے مستحق بن گئے۔ بالکل اسی طرح کہ کوئی بندہ کسی ملک کے شہنشاہ کی بہت اچھی طرح خدمت کرے تو شہنشاہ ایسے خدمت گار کو کسی علاقے کا بادشاہ بنا دیتا ہے اور اپنے ماتحت ریاست کے شہروں میں سے کسی ایک شہر کا نظم و نسق اور حکمرانی اُس کے سپرد کردیتا ہے۔ اب اُس شہر والوں پر لازمی ہے کہ اپنے اوپر مقرر کیے ہوئے بادشاہ کی فرماں برداری اور اطاعت کریں۔
(ب) وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ اُن نیک بندوں کی عبادت نہ کی جائے، بلکہ حق تعالیٰ بہت بلند درجے پر ہے۔ اس کے قرب کے لیے صرف اس کی عبادت فائدہ نہیں دے گی، بلکہ ان نیک بندوں کی عبادت کرنا لازمی ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سفارش کریں۔
(ج) ان کا کہنا ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے سنتے بھی ہیں، دیکھتے بھی ہیں اور اپنے عبادت کرنے والوں کی سفارش بھی کرتے ہیں۔ وہی اُن کے کاموں کا نظم و نسق بھی چلاتے ہیں او ران کی مدد کرتے ہیں۔
چناںچہ انھوں نے ان نیک بندوں کے نام پر پتھر گھڑ لیے اور اپنی توجہ کا قبلہ و کعبہ ان پتھروں کو بنا لیا۔ اس کے بعد آنے والی نااہل نسلوں نے اُن نیک بندوں کی شکل و صورت اور ان کے بنائے ہوئے پتھروں کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھا، بلکہ انھوں نے براہِ راست انھی پتھروں کو اپنا معبود بنا لیا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس شرک اور کفر کو درجِ ذیل طریقوں سے رد کیا:
(الف) کبھی اس بات پر تنبیہ کی کہ حکمرانی اور بادشاہت صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ (ب) کبھی یہ بات واضح کی کہ یہ پتھر کے بنے ہوئے بت جمادات میں سے ہیں۔ چناںچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے قرآن حکیم میں درجِ ذیل سوالات کیے: (1) ’’کیا اُن کے پاؤں ہیں، جن سے وہ چلتے ہیں؟ (2) کیا ان کے ہاتھ ہیں، جن سے یہ پکڑتے ہیں؟ (3) کیا ان کی آنکھیں ہیں، جن سے یہ دیکھتے ہیں؟ (4)کیا ان کے کان ہیں، جن سے یہ سنتے ہیں؟ ‘‘(الاعراف:95)
3۔ نصرانی: یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ کا قرب اور باقی مخلوق پر برتری حاصل ہے۔ پس یہ مناسب نہیں ہے کہ انھیں ’’عبد‘‘ (اللہ کا غلام) کہا جائے اور دوسرے انسانوں کے برابر قرار دیا جائے۔ اس لیے کہ یہ اُن کے ساتھ بے ادبی ہے اور ان کو اللہ سے جو قرب حاصل ہے، اُسے نظرانداز کرنا ہے۔
(الف) پھر بعض نصرانیوں نے اس خصوصیت کی تعبیر کرتے ہوئے اُن کا نام ’’اِبنُ اللّٰہ‘‘ (اللہ کا بیٹا) قرار دے دیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ باپ اپنے بیٹے پر رحم کرتا ہے اور اپنی نگاہوں کے سامنے اُس کی تربیت کرتا ہے اور وہ غلاموں کے مقابلے پر بلند تر ہوتا ہے۔ چناںچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔
(ب) بعض نصرانیوں نے حضرت عیسیٰؑ کا نام ’’اللہ‘‘ رکھ دیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰؑ کی ذات میں حلول کرگیا ہے۔ وہ اُن کے وجود میں داخل ہوگیا ہے۔ اسی لیے حضرت مسیحؑ سے ایسی کرامات اور آثار ظاہر ہوتے ہیں، جو کسی بشرِ انسانی سے ظاہر ہونا ممکن نہیں۔ مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا، پرندے بنا کر اُڑانا۔ اس لیے اُن کا کلام‘ اللہ کا کلام ہے اور اُن کی عبادت‘ اللہ کی عبادت ہے۔
ان کے بعد ان کی نااہل اولادوں نے حضرت مسیحؑ کے اس نام کی اصل وجہ کو نہیں سمجھا اور انھوں نے حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا حقیقی بیٹا بنا دیا۔ یا انھوں نے یہ گمان کرلیا کہ حضرت مسیحؑ تمام پہلوؤں سے خود اللہ ہیں۔
اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس غلط فکر کا درجِ ذیل طریقوں سے رد کیا:
(1) کبھی یہ حقیقت بتلائی کہ اللہ کی تو کوئی بیوی ہی نہیں ہے (اس کا بیٹا کیسے ہوگیا؟)۔ (الانعام: 101)
(2) کبھی یہ حقیقت واضح کی کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو بغیر کسی مادے کے پیدا کرنے والا ہے۔ اور اللہ کے حکم کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ’’کُنْ‘‘ کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ (البقرہ: 116-17)
یہ تین (گمراہ) فرقے ہیں، جن کے بڑے لمبے چوڑے دعوے ہیں اور ان کی بہت سی خرافات ہیں۔ تحقیق کرنے والے پر یہ بات مخفی نہیں ہے۔
توحید کے انھی دو مرتبوں (1۔ آسمانوں اور زمینوں کی حکمرانی 2۔ اور اللہ کے علاوہ کوئی اَور عبادت کا مستحق نہیں) کے حوالے سے قرآن عظیم نے بحث کی ہے اور کافروں کے شبہات کو کافی طور پر بہت اچھے اور بہترین طریقے سے رد کیا ہے۔
(المبحث الخامس، مبحث البرّ و الإثم، باب 1: توحید)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (4۔ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی عظمت اور سلطنت ) ’&rs…
احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت (1)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…
مختلف اوقات اور حالات کی دعائیں(4)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (نئے کپڑے پہننے کی دعائیں) جب نیا کپڑا پہنے تو یہ دعائیں پڑھے: (1) …