برعظیم پاک و ہند کی عظیم خانقاہ‘ خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے بانی حضرت عالی شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ کے پیر و مرشد حضرت شاہ عبد الرحیم سہارن پوریؒ سوات و بُنیر کے مجاہدِ حریت حضرت اخوند عبدالغفور سواتیؒ کے اجل خلیفہ اور جانشین تھے۔ جن کا سلسلہ مجددیہ قادریہ ہے، جو حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ تک جاتا ہے۔ اس سلسلے کی یہ خصوصیت ہے کہ شریعت، طریقت اور سیاست کا جامع ہے۔ سامراج کے خلاف مجاہدانہ جذبات سے لب ریز اور اس کے ظالمانہ تسلط کے خلاف ہر دم برسرِپیکار رہنے والا سلسلۂ تصوف ہے۔ اس سلسلۂ عالیہ میں جماعت سازی اور اس کی تربیت بھی انھی خصوصیات کی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ عصرِ حاضر میں اس سلسلے کی حقیقی نمائندہ خانقاہ‘ خانقاہِ عالیہ رحیمیہ قادریہ عزیزیہ رائے پور ہے۔
حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ کی پیدائش 1799ء میں موضع سرساوہ ضلع سہارن پور میں ہوئی۔ ان کے آبائو اَجداد کسی زمانے میںافغانستان سے یہاں آکر آباد ہوگئے تھے۔ حضرت سہارن پوریؒ ظاہری علوم پڑھے ہوئے نہیں تھے، لیکن خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ باطنی ترقی اور تزکیۂ قلوب میں اپنی مثال آپ تھے۔ ہزارہا تشنگانِ تربیت نے آپؒ سے فیض حاصل کیا۔ ابتدائی زندگی سرساوہ سہارن پور ہی میں گزری۔ مضبوط جسمانی طاقت، وجیہ اور قدآور ہونے کی وجہ سے پہلے انگریز کی فوج میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔
حضرت اخوند عبدالغفور سواتیؒ المعروف ’’سیدوبابا‘‘ کے ہاتھ پر بیعت ہونے سے پہلے آپؒ انگریز کی فوج میں ملازمت کرتے تھے۔ 1863ء میں جنگِ امبیلہ کے دوران اخوند صاحبؒ کے خلاف انگریزی فوج کی لڑائی کے دوران بُنیر کے علاقے میں شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ کی ملاقات حضرت اخوند صاحبؒ سے ہوئی تو ان کی تعلیمات سے بہت متأثر ہوئے۔ انگریزی فوج میں شمولیت کی غلطی کا احساس ہوا۔ حضرت اخوندؒ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کی درخواست کی، لیکن حضرت اخوند صاحبؒ نے اس شرط پر بیعت کی کہ آئندہ سے انگریز کی نوکری نہیں کریں گے۔ انھوں نے حضرتؒ کی یہ شرط مان لی اور بیعت کے بعد تعلیم و تزکیہ کے لیے وہیں سوات میں ہی سکونت اختیار کرلی۔ حضرت سیدوباباؒ سے تربیت حاصل کرکے اس سلسلۂ عالیہ میں خلیفہ بنے۔
کچھ عرصہ سوات میں گزارنے کے بعد آپؒ نے سہارن پور شہر میں مرکز قائم فرمایا اور خانقاہ کی بنیاد رکھی، جہاں بے شمار طالبینِ حق نے آپؒ سے فیض حاصل کیا۔ مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے طلبا کو جب بھی فرصت کے لمحات میسر آتے تو وہ آپؒ کی مجلس میں حاضر ہو جاتے تھے۔ روزانہ عصر تا مغرب استفادہ نشستوں کا اہتمام ہوتا تھا، جس میں حاضرین آپؒ سے مختلف موضوعات پر رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ آپؒ کی تعلیمات کا یہ خاصہ تھا کہ ہر آنے والے کو اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ کسی فرد میں کوئی کمی دیکھتے تو اس کو بہت پیار سے سمجھاتے تھے۔ حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ فرماتے ہیں کہ: ’’آپؒ کے چہرئہ مبارک پر ایسی نورانیت اور کشش تھی کہ جب بازار سے گزرتے تو ہندو مسلم بے اختیار (ادب سے) کھڑے ہو جاتے اور عرض کرتے:ـ’’میاں صاحب! سلام‘‘۔
حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سرساوی سہارن پوریؒؒ کے ساتھ ہونے والی نشستوں کے دوران مدرسے والوں سے آپؒ بھی مسائل دریافت کیا کرتے تھے، تاکہ حاضرین بھی ان علما سے مسائل میں رہنمائی لے لیا کریں اور عوام میں دین دار لوگوں سے تعلق قائم رکھنے کی طرف رہنمائی بھی ملتی رہے۔ سہارن پور میں آپؒ کی خانقاہ گرد و نواح کے عوام الناس کے لیے بے نظیر تربیت گاہ تھی۔
حضرت میاں صاحبؒ کی کوشش یہی رہی کہ لوگوں میں دینِ اسلام سے محبت اور دینی تعلیم حاصل کرنے کا شعور بیدار ہو۔ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے سہارن پور ہی میں آپؒ نے دینِ اسلام کی تعلیمات کو شریعت، طریقت اور سیاست کے ذیل میں سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ایک مدرسہ ’’تعلیم القرآن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جہاں قرآنِ حکیم کی تعلیمات کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ اس ادارے کی سر پرستی فرمائی اور تعلیمی سرگرمیوں میں مستقل رہنمائی فرماتے رہے۔ اس مدرسے کے ناظمِ تعلیمات اپنے ایک خلیفہ اور ماہرِ تعلیم مولانا نورمحمد لدھیانویؒ کو مقرر فرمایا، جنھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پراس مدرسے کو کمالِ مہارت سے چلایا۔
جن دنوں ہندوستان میں ایک خاص حلقے کی جانب سے مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد قرار دیے جانے کی تحریک زوروں پر تھی تو شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ سے بھی اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس موقع پر آپؒ نے دو ٹوک انداز میں یہ بات ان لوگوں پر واضح کردی کہ اس کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ اور فرمایا کہ: ’’یہ شخص تھوڑے دنوں میں ایسے دعوے کرے گا، جو نہ رکھے جائیں گے اور نہ اٹھائے جائیں گے‘‘۔
حضرت موصوفؒ کے تربیت یافتگان میں سب سے نمایاں نام حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کا ہے، جنھوں نے دینِ اسلام کی شریعت، طریقت اور سیاست کی حامل جامعیت کو خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور میں بیٹھ کر اختیار فرمایا اور انھی تینوں بنیادوں پر خاص و عام کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا۔ اگلے دور میں یہی تربیتی اُسلوب اختیار کرتے ہوئے شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ نے بھی مولانا نور محمد لدھیانویؒ کو ہی اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا انچارج مقرر فرمایا تھا۔ مولانا شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ سے حاصل ہونے والی حریت و آزادی کی فکر کو ’’تحریکِ ریشمی رُومال‘‘ میں علمی کردار کے حوالے سے اُجاگر کیا۔
حضرت شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ کا وصال 89 سال کی عمر میں۲۱؍ ربیع الاوّل۱۳۰۳ھ / 28؍ دسمبر 1885ء کو ہوا۔ مزارِ مبارک سہارن پور میں انبالہ سرساوہ روڈ پر مرجع خلائق ہے۔ آپؒ کے خلفا میں مولانا محمد امیر باز خانؒ، مولانا شاہ عبداللہ کرنالویؒ، مولانا شاہ ابو الحسنؒ، شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، مولانا نور محمد لدھیانویؒ اور دیگر قابلِ ذکر ہیں۔
Tags
Wasim Ejaz
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری ؒکا سانحۂ اِرتحال
2؍ فروری 2021ء کو ایک افسوس ناک پیغام کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ ولی اللّٰہی تحریکات و شخصیات کے محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے ہیں۔ إنّا للّٰہ و…
امینُ المِلّت سردار محمد امین خان کھوسو ؒ
حریت و آزادی کی تحریکات میں وادیٔ مہران کسی طور بھی وطنِ عزیز کے کسی بھی حصے سے پیچھے نہیں رہی۔ اس نے ہمیشہ ہراوَل دستے کا کام سر انجام دیا ہے۔ سندھ دھرتی کے حریت پسندوں می…
امام الاولیا حضرت حسن بصریؒ
حضرت حسن بصریؒ کا اصل نام حسن بن یسار ہے۔ آپؒ نے رسول اکرم ﷺ کے گھر میں آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت اُم سلمہؓ کی گود میں پرورش پائی۔ حضرت اُم سلمہؓ نہایت عقل مند، سلیقہ شعار، پیکرِ …
مولانا لیاقت علی الٰہ آبادیؒ
بر عظیم ہندوستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا، جسے ولی اللّٰہی جماعت کے افراد نے متأثر نہ کیا ہو۔ یہ تحریک‘ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے وہ واحد تحریک تھی، جس نے نہ صر…