عَنْ أَبِي خَلَّادٍ،ؓ وکَانَتْ لَہٗ صُحْبَۃٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ: ’’إذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُھْدًا فِي الدُّنْیَا، وَقِلَّۃَ مَنْطِقٍ، فَاقْتَرِبُوا مِنْہُ، فَإِنَّہُ یُلْقي الْحِکْمَۃَ‘‘۔ (سُنن ابن ماجہ: 4101)
(حضرت ابوخلاد (عبدالرحمن بن زہیرؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم گوئی دی گئی ہے تو اس کے قریب ہوا کرو۔ کیوں کہ وہ حکمت کی باتیں کرتا ہے‘‘۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق دنیا میں بے جا انہماک سے اجتناب اور بلاوَجہ لمبی گفتگو سے گریز انسان میں حکمت و شعور کا وصف پیدا کر دیتا ہے۔ حضوؐر نے اس نعمت کے حصول کی دو شرائط بیان فرمائیں: ایک زُہد اور دوسری گفتگو میں غیرضروری طوالت سے پرہیز۔ دنیا سے اس حدتک تعلق کہ دین فراموشی نہ ہو، زہد ہے۔ گویا زُہد کا معنی دنیا کی حرص اور لالچ سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔
قارون نے جب کبر و غرور اور دولت پر اِترانا شروع کیا تو اہلِ تقویٰ نے اسے کہا: دنیا سے جو تمھارا حصہ بنتا ہے، وہ لے لو، لیکن آخرت کو نہ بھولو۔ اور اللہ نے جیسے تم پر احسان کیا ہے، اسی طرح تم بھی مخلوقِ خدا سے احسان والا معاملہ کرو۔ (القرآن 77:28)
زُہد کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپ دنیا سے ایسے لاتعلق ہوجائیں کہ محتاجی اور درماندگی پیدا ہوجائے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت آجائے۔ نبی اکرمؐ کے پاس ایک شخص آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔ آپؐ نے انھیں دے دیا۔ پھر اَور دے دیا۔ پھر تیسری بار انھوں نے سوال کیا تو آپؐ نے منع فرما دیا۔ گویا دنیا سے اپنے آپ کو پہلے بالکل لاتعلق کرلینا، پھر ہاتھ پھیلا دینا، یا پہلے دنیا کی نفی کردینا، پھر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے پریشان ہونا، اس کو زُہد نہیں کہتے۔
اسی طرح نبی اکرمؐ نے بعض روایات میںایسے لوگوں سے بچنے کا حکم دیا، جو کہانی بازی کرتے ہیں۔ بصیرت اور شعور سے خالی بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لوگوں کو متأثر اور متوجہ کرنے کے لیے بلاضرورت بات کو طویل کرتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے علمائے حق اور علمائے سو کے درمیان یہ فرق بیان کیا ہے کہ علمائے سو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بات کرتے ہیں، جب کہ اہلِ حق اپنی گفتگو میں اس امر کو پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ اس دور کی گمراہی کیا ہے۔ لوگوں کو کیا بات سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگوں کی پسند ناپسند سے مستغنی ہوکر روحِ عصر کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔ (القول الجمیل)
زیرِنظر حدیث میں نبی اکرمؐ نے اس معیار کے لوگوں کو حکمت کا حامل قرار دیا ہے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایسے اہلِ بصیرت کے ساتھ تعلق قائم رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے مذکورہ نعمت کے حصول کی توقع کی جاسکتی ہے۔ قرآنِ حکیم نے اس نعمت (حکمت) کو ’’خیرِکثیر‘‘ کہا ہے۔ (القرآن 269:2)
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…