( مسئلۂ یوکرین)
شیطان اپنی شیطنت سے کبھی باز نہیں آتا۔ اس کا علاج صرف اسے مغلوب کر کے رکھنے میں ہوتاہے۔ جنگ اگرچہ مسئلے کا حل تو نہیں ہوتی، لیکن حل تک پہنچنے کی ابتدائی سیڑھی ضرور کہلاتی ہے۔ ہر مسئلہ محض گفتگو کے ذریعے بھی حل نہیں ہوتا۔ بعض اوقات مخالف فریق کی نفسیات کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، جنھیں پورا کرنا وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر انھیں پورا نہ کیا جائے تو پھر ایسے مسائل جنم لیتے ہیں، جن کا تدارُک مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ مسائل پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ویسے بھی ریاست اگر اپنے دفاع سے غافل ہوجائے تو پھر اس کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ فطرت نے اپنے ارکان میں جہاد کے رُکن کو مستقل حیثیت دی ہے۔ اگر اس کی اہمیت وقتی اور عارضی ہوتی تو اسے مستقل رُکن کا درجہ نہ دیا جاتا۔
1991ء میں جب روس نے اپنی ملحقہ ریاستوں کو آزادکرنا شروع کیا تو امریکا نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ذریعے وہاں مغرب نواز حکومتیں بنوانا شروع کردیں۔ یوکرین وسائل اور طاقت کے لحاظ سب سے مالا مال تھا، اس کے ایٹمی پلانٹ اتنے طاقتور تھے جنھیں دو مراحل یعنی 1996ء اور 1999ء میں بالترتیب اس وقت کے صدر لیونڈ کوچما(Leonid Kuchma)کے ذریعے ختم کروایا گیا۔ ایٹمی پلانٹ کے ختم کرنے سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ حکومتیں سیاسی طور پر نابلد تھیں۔ آج جب چین میں سرمائی اولمپکس کھیلوں کا انعقاد ہونے جارہا تھا، امریکانے پھر یو کرین کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ جس کے لیے وہ نیٹو کو متحرک کرنے کی نازیبا حرکتیں کررہا ہے۔ روس کی انٹیلی جنس کے مطابق امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے پہلے مرحلے میں یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنانا تھا۔ اس کے بعد روس کے خلاف یوکرین کی سرحد کے ساتھ میزائل نصب کر کے ا س کی شہ رگ کو مسلنا تھا۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک کامیڈین اداکار ولادیمیر زیلینسکی کو یوکرین کا صدر بنوایا گیا۔ روس اس ساری صورتِ حال کا نظرِ عمیق سے مشاہدہ کررہا تھا۔
امریکا نے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے پیوٹن کے چین جانے کے موقع کا انتخاب کیا، جب کہ روس یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ فوج تعینات کرکے گیا تھا۔ جس کو بنیاد بناکر امریکا نے واویلا شروع کردیا تھا کہ خطے میں جنگ کے بادل منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔ یوکرین کی سرحد کے ساتھ فوجوں کی تعیناتی سے مغربی طاقتوں کے منصوبے ناکام ہوتے دکھائی دینے لگے، جس کا اظہار ان کے چیخنے چلانے سے ہورہا تھا۔ حقیقت میں امریکا روس کے دفاعی نظام کو غیر مؤثر کرنے کی ابھی تک کوئی جدید ٹیکنالوجی متعارف نہیں کرواسکا، البتہ اپنے مذموم عزائم لفافہ صحافیوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
ولادی میرپیوٹن نے 24؍ فروری 2022ء کو یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد اقوامِ عالم سے ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ اس خطاب میں اس نے متنوع پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ان میں ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ ’’اب مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں، اس کا تعلق صرف روس کے ساتھ نہیں ہے۔ اور روس ہی واحد ملک نہیں ہے، جو اس بارے میں پریشان ہے۔ اس کا تعلق بین الاقوامی تعلقات کے پورے نظام اور بعض اوقات امریکی اتحادیوں سے بھی ہوتا ہے۔ سوویت یونین کا انہدام دنیا کی دوبارہ تقسیم کا باعث بنا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اور خود امریکا کو سرد جنگ کا فاتح قرار دینے والوں نے بین الاقوامی قوانین کے اصول تیار کیے، جنھوں نے ایک قسم کی جدید مطلق العنانیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی خوشی کی کیفیت دیکھی، جس کے ساتھ ان لوگوں کے پست ثقافتی معیارات اور تکبر کے ساتھ جنھوں نے صرف اپنے لیے موزوں فیصلے مرتب کیے اور آگے بڑھائے۔ صورتِ حال نے ایک اَور رُخ اختیار کیا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ سب سے پہلے ’’بلغراد‘‘ کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر، یورپ کے قلب میں جنگی طیارں اور میزائلوں کے ساتھ ایک خونی آپریشن کیا گیا۔ پُرامن شہروں اور اہم انفراسٹرکچر پر بمباری کئی ہفتوں تک جاری رہی۔ ۔۔۔ پھر لیبیا، شام، عراق کی باری آئی۔۔۔ وغیرہ‘‘۔
اگر شتر بے مہار قوتوں کوایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو دنیا کا امن کا تباہ ہوجاتا ہے۔ چھوٹی اور کمزور اقوام کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دنیا پھر سے جنگل کا نمونہ بن جاتی ہے۔ انسانیت کے ارتقا کا عمل تعطل کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا امن کے قیام کے لیے طاقت کا توازن ضروری ہے۔ آج ساری دنیا میں یہ تأثر پھیل رہا ہے کہ استعمار کا کر دار ماسوائے منافقت کے کچھ نہیں ہے۔ وہ جن قوتوں کے ساتھ ہوتا ہے، بہ ظاہر ان کی مدد اور تعاون کا دعوے دار بنتا ہے، لیکن جوں ہی اس کی اتحادی قوتوں پر مشکل وقت آتاہے، فوراً پیٹھ دکھا کر بھاگ جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کا صدر جسے خود امریکی اتحادی لے کر آئے تھے، آج جب اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت تھا تو اس کے نئے دوستوں نے کھلے عام کہنا شروع کردیا ہے کہ اپنا دفاع خود کر و۔ ہم آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ دنیا میں چین واحد ملک ہے، جس نے روس کے ساتھ مکمل وفاداری نبھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگرچہ امریکا آج اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کررہا ہے، لیکن وہ ایسا کرے گا نہیں۔ ہاں! اگر کرتا ہے تو صرف کمزور ملکوںکے ساتھ جیسے پاکستان وغیرہ۔ البتہ چین اور روس کے ساتھ ایسا کرے گا نہیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے بڑی طاقتیں متبادل راستے پر چل نکلیں گی، جو امریکاکے لیے معاشی موت ثابت ہوگی۔ کیوں کہ امریکا کی بالادستی محض ڈالر کی بالادستی کی بنیا د پر قائم ہے۔ مزید یہ کہ چین اور رُوس پہلے ہی ایک تجارتی اتحاد تشکیل دے چکے ہیں۔
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
نیٹو مظالم سے بچانے کی رُوسی حکمت ِعملی (1)
آج 12؍ مارچ 2022ء کا دن ہے اور عالمی میڈیا نے 12 گھنٹے قبل کی ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں یوکرین کے دارلحکومت کیف (kyiv) میں روسی ٹینکوں کی ایک طویل ترین قطار داخل ہوتے…
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …