سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنیا اور آخرت میں عذاب کی مستحق ہوتی ہے۔ وہ دین کی اقترابی رسومات اور رسمی عبادات کو تو سرانجام دیتی ہے، لیکن دین کی عادلانہ سیاست، جس کے نتیجے میں انسانی جان و مال کی ظالموں سے حفاظت کی جاتی ہے، اُسے اختیار نہیں کرتی۔ اس طرح اُن کا سیاسی ذوق خراب اور فاسد ہوجاتا ہے۔ وہ سیاسی شعور سے عاری ہوجاتی ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ (87) میں یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ جب کسی جماعت کا دینی تعلیمات کے حوالے سے تفریق کا یہ رویہ پیدا ہوجاتا ہے اور اُس کا سیاسی شعور ختم ہوجاتا ہے تو وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتی ہے۔ اور انبیا علیہم السلام اور اُن کے سچے وارثین کی حقانی تعلیمات کی پہچان نہیں رکھتی۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ (اور بیشک دی ہم نے موسیٰ کو کتاب، اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول) : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک جامع کتاب عطا کی تھی، جس میں عبادات کے نظام کے ساتھ ساتھ دینی سیاسیات کی اَساس پر حکومت قائم کرنے کا پورا نظام موجود تھا۔
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’انبیا علیہم السلام میں سے دو انبیا؛ یعنی ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک بڑی عظیم منقبت حاصل ہے۔ اور وہ یہ کہ اُن دونوں کی نبوت‘ ان دونوں کی خلافت و حکومت میں داخل ہے۔ ۔۔۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے زمین میں کمزور بنا دیے گئے بنی اسرائیل پر احسان کیا اور اُن کی حکومت قائم کی۔ اسی طرح ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے بھی بین الاقوامی حکومت قائم کی‘‘۔ (تفہیماتِ الٰہیہ، ج: 2، تفہیم: 198)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہودیوں نے ایسی جامع کتاب تورات کی کامل اور مکمل تعلیمات سے روگردانی کی اور اُن کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی انبیا بنی اسرائیل میں آئے، انھوں نے اُن کا کثرت سے انکار کیا۔ اس لیے کہ ’’وہ کتاب کے ایک حصے (عبادات) پر ایمان رکھتے تھے اور دوسرے حصے (سیاسیات) کا انکار کرتے تھے‘‘۔ جیسا کہ گزشتہ آیت (85) میں گزرا ہے۔
وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: (اور دیے ہم نے عیسیٰ _ مریم کے بیٹے _ کو معجزے صریح، اور قوت دی اس کو روح پاک سے) : پھر اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو واضح دلائل دے کر تورات کی جامع تعلیمات سمجھانے کے لیے بھیجا۔ اور اسی کے ساتھ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے ذریعے سے انھیں طاقت اور قوت عطا کی، تاکہ دینِ حنیفی کا صحیح شعور اُن میں پیدا ہوجائے، لیکن انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی سخت مخالفت کی اور اُن کا انکار کیا اور اُن کے قتل کے درپے ہوگئے۔ اس لیے کہ وہ اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ اور اپنی طبقاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کے خلاف جو نبی بھی آکر حق بیان کرتے، اُس کو بزعمِ خویش باطل قرار دے دیتے۔ اس طرح حق و باطل میں تمیز کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔ اور انبیا علیہم السلام کی حقانی تعلیمات کے انکار کے نتیجے میں غضبِ الٰہی کے مستحق ہوتے چلے گئے۔
اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ (پھر بھلا کیا جب تمھارے پاس لایا کوئی رسول وہ حکم جو نہ بھایا تمھارے جی کو تو تم تکبّر کرنے لگے): نوبت یہاں تک آگئی کہ جب بھی اُن کے پاس کوئی رسول آتے اور اُن کی خواہشات کے خلاف صحیح دینی تعلیمات اور سیاسی شعور پر مبنی سچی باتیں بیان کرتے تو وہ بڑے تکبر سے اُس کا انکار کردیتے تھے۔ جب کہ قربِ الٰہی کے نام پر رسمی عبادات اور مذہبی فروعات پر عمل کررہے ہوتے تھے، لیکن سیاسی مفادات میں گروہی اور طبقاتی خواہشات کے اسیر رہتے تھے۔ اس طرح وہ اللہ کے غضب در غضب میں مبتلا ہوتے رہے۔ ارشادِ ربانی ہے کہ:فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ١٘ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ (-2 البقرہ: 90)۔
مفسرین کے مطابق بنی اسرائیل میں کوئی چار ہزار کے قریب انبیا علیہم السلام یکے بعد دیگرے آئے ہیں۔ ہر ایک رسول اور نبی کی حقانی تعلیمات کے ساتھ یہودیوں کا یہی رویہ رہا۔ اور جب اپنی خواہشات اور تمناؤں کے مطابق سیاسی مفادات اُٹھانے لگے تو آہستہ آہستہ اُن کی حکومت بھی ختم ہوتی گئی۔ اس لیے کہ جس قوم کا سیاسی ذوق اور شعور فاسد اور خراب ہوجائے، تو اُس کے مفاد پرست سیاسی رہنما حکومت قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ١٘ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ (پھر ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک جماعت کو تم نے قتل کردیا): انبیا علیہم السلام کی حقانی تعلیمات سے انکار کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے بہت سے انبیا علیہم السلام کا انکار کیا اور بہت سے ایسے انبیا بھی گزرے ہیں، جنھیں انھوں نے قتل کیا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺکو جھوٹا کہا اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کو قتل کیا‘‘۔ اس لیے کہ عدل و انصاف اور احسان و عبادات کے درمیان تفریق کرنے کے نتیجے میں اُن کا دینی مزاج خراب ہوگیا تھا۔ سچے انبیا علیہم السلام کی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی تھی۔
اس آیتِ مبارکہ میں یہودیوں کی سیاسی بے شعوری اور دینی بدمزاجی کی حالت بیان کرکے آنے والی تمام اقوامِ عالم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ دین و دنیا کی تفریق پیدا کرنا اور قرآن حکیم کی جامع اقترابی اور سیاسی تعلیمات کو پیش نظر نہ رکھنا اور سیاسی بے شعوری کا مظاہرہ کرنا قوموں کی تباہی اور بربادی کا باعث ہوتا ہے۔ اور وہ بہ تدریج دوسروں کی غلامی میں مبتلا ہو کر اپنی قومی حکومت اور سیاست سے محروم ہوجائیں گے۔ اور دنیا اور آخرت میں غضب ِالٰہی کے مستحق ٹھہریں گے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…
Violation of laws and constitution; A Habit of Jews
The previous verses (87-90) of Surah Al-Baqarah mention the corruption of the Israelites, who continuously rejected comprehensive religious teachings sent by Allah, cont…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…