احادیثِ نبویہؐ کی روشنی میں ’’عقل‘‘ سے متعلق مقامات

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
May 12, 2025 - Waliullahi thoughts
احادیثِ نبویہؐ کی روشنی میں ’’عقل‘‘ سے متعلق مقامات

​​​

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’جب ہم اُن بنیادی اُمور کے بیان سے فارغ ہوئے جن پر علم الاحسان کے باب سے متعلق احادیثِ نبویہؐ کی تشریح موقوف تھی، تو اب ہم اس باب سے متعلق احادیث کی شرح شروع کرتے ہیں۔ پس ہم کہتے ہیں کہ: ’’عقل‘‘ سے متعلق تمام مقامات واحوال کا مرکزی اُصول ’’یقین‘‘ ہے۔ اس ’’یقین‘‘ سے جو مقامات اور احوال پھوٹتے ہیں، وہ ’’توحید‘‘، ’’اخلاص‘‘، ’’توکل‘‘، ’’شکر‘‘، ’’اُنس‘‘، ’’ہیبت‘‘، ’’تفرید‘‘، ’’صدیقیت‘‘، ’’محدثیت‘‘ اور اس کے علاوہ ایسے مقامات ہیں، جن کا شمار کرنا طوالت رکھتا ہے۔

(مقامِ ’’یقین‘‘ سے متعلق احادیث)

(1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا ہے کہ: ’’الیقینُ الإیمانُ کُلُّہٗ‘‘ (’’یقین‘‘ کا پیدا ہوجانا مکمل ایمان ہے)۔ اور اسے ’’مرفوعاً‘‘ بھی روایت کیا گیا ہے (طبرانی وبیہقی وغیرہ نے اس حدیث کو موقوفاً روایت کیا ہے اور امام بیہقیؒ نے اس کو نبی اکرم ﷺ کا قولِ مرفوع روایت کیا ہے)۔ (الدُّرُّ المَنْثُور، 1/66)

(2) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’(اللّٰہُمَّ!) ۔۔۔ واقْسِمْ لَنَا مِنَ الیَقِینِ مَا تُھَوِّنُ بہ علینا مصائب الدُّنیا‘‘۔ (جامع ترمذی، حدیث: 3502) (اے اللہ! ہمیں ایسا خوف عطا کردے جو تیری نافرمانی اور ہمارے درمیان حائل ہوجائے اور اپنی ایسی اطاعت عطا فرما، جس کے نتیجے میں ہم تیری جنت میں پہنچ جائیں) اور ہمیں اتنا یقین دے دے کہ جس کی وجہ سے دنیا کی مصیبتیں ہم پر آسان ہو جائیں۔)

مَیں کہتا ہوں کہ: ’’یقین‘‘ کا معنی اور مطلب یہ ہے کہ ’’جو کچھ شریعت میں ’’تقدیر‘‘ کے مسئلے اور ’’آخرت‘‘ کے مسئلے سے متعلق آیا ہے ، اس پر ایک مؤمن کا ایمان رکھنا ہے اور یہ ایمان اُس کی ’’عقل‘‘ پر اس طرح غالب آنا ہے کہ اُس کی عقل اس ایمان (کے نور) سے بھر جائے اور اُس کی عقل سے ایمانی قطروں کی بارش اُس کے ’’قلب‘‘ اور ’’نفس‘‘ پر برسے، یہاں تک کہ وہ ان یقینی اُمور کو اس طرح بصیرت کی آنکھ سے دیکھے گویا کہ یہ اُمور ایک محسوس اور سامنے کی دیکھے ہوئے اُمور ہیں۔

اور یہ جو فرمایا ہے کہ: ’’یقین‘‘ ہی مکمل ایمان ہے‘‘، اس لیے کہ ’’یقین‘‘، ’’عقل‘‘ کو مہذب بنانے میں سب سے عمدہ مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور ’’عقل‘‘ کا مہذب ہونا ہی ’’قلب‘‘ اور ’’نفس‘‘ کے مہذب ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اور یہ بات اس لیے ہے کہ ’’یقین‘‘ جب ’’قلب‘‘ پر غالب آتا ہے تو اُس سے بہت سے شعبے پھوٹتے ہیں۔ پھر وہ اُن چیزوں سے نہیں ڈرتا جس سے عام طور پر انسان ڈرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ جو چیز بھی اُسے پہنچی ہے، وہ اُس کے لیے غلط نہیں اور جو غلط ہے، وہ اُسے پہنچ نہیں سکتی۔ اس طرح اُس پر دنیا کی مصیبتیں جھیلنا آسان ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو آخرت میں جو وعدے دیے گے ہیں، اُس پر کامل اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔

اسی طرح اُس کا نفس بہت زیادہ اسباب جمع کرنے کی طرف متوجہ ہونے کو بُرا سمجھتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی واجبی قدرت ہی اپنے اختیار اور ارادے سے اس عالم میں مؤثر ہے۔ اور جو مادی اسباب ہوتے ہیں، وہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ہیں۔ چناں چہ عام لوگ جن چیزوں کے حصول کی کوشش کرتے اور مشکلات برداشت کرتے ہیں، اُن کے حصول میں مؤمن کی کوشش میں کمی آجاتی ہے۔ اس کے نزدیک دنیا کے سونا چاندی اور یہاں موجود پتھر ایک برابر حیثیت رکھتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب ’’یقین‘‘ مکمل، مضبوط اور طاقت ور ہوجاتا ہے اور اُس پر ہمیشگی پیدا ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ اُس کی حالت میں کوئی فقر و فاقہ، کوئی مالداری، کوئی عزت اور کوئی ذِلت تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی تو اس یقین سے بہت سارے شعبے پھوٹتے ہیں۔

(مقامِ ’’شکر‘‘ سے متعلق احادیث)

ان شعبوں میں سے ایک مقام ’’شکر‘‘ کا ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ اس کے پاس جو تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں ہیں، ان کا فیضان اُس کے خالق ومالک - جَلَّ مَجْدُہٗ - کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو اُس کا شکر ادا کرنے سے عاجز دیکھے اور اسی مشاہدے اور کیفیت میں وہ مضمحل رہے اور گھلتا رہے۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں سب سے پہلے جو لوگ پکارے جائیں گے، وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے والے ہیں، وہ جو ہر مصیبت اور خوشی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں‘‘۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، مشکوٰۃ، حدیث: 2308)

مَیں کہتا ہوں کہ بات یہ ہے کہ ’’شکر‘‘ ادا کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ انسان کی ’’عقل‘‘ اور ’’قلب‘‘ پر اللہ تعالیٰ پر یقین کی فرماں برداری غالب ہے اور یہ کہ نعمتوں کی معرفت اور اُن نعمتوں کو پیدا کرنے والے کے فیضان کا مشاہدہ عالم مثال میں ایسی ’’قوتِ فعالہ‘‘ پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مثالی قوتیں اور ’’الھیاکل الأُخرویّۃ‘‘ (اُخروی نعمتیں) وجود میں آتی ہیں۔ چناں چہ تفصیلی طور پر نعمتوں کی معرفت اور انعام دینے والی ذات تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اُن کے فیضان کا مشاہدہ اللہ کی سخاوت کے دروازے کو کھٹکھٹانے میں دعائے مستجاب سے کسی طرح کم نہیں ہے۔

(اس کی تشریح کرتے ہوئے امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’قوائے مثالیہ سے متأثر ہونے کا مطلب اُس شکر ادا کرنے والے فرد کے اعمال کا عالمِ مثال میں مثالی شکل اختیار کرنا ہے۔اور ایسی قوتوں کی شکل اختیار کرنا ہے کہ جیسے اس عالم میں ہونے والے مختلف واقعات کے پیچھے قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ’’الھیاکل الأُخرویّۃ‘‘(اُخروی نعمتوں) سے مراد مثلاً جنت میں عطا کردہ نعمتیں ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیضان ہونے والی نعمتوں کو تفصیلی طور پر جان لیتا ہے اور اُن کے فیضان کا مشاہدہ کرلیتا ہے اور اُس کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرتا ہے تو یہ عالمِ مثال میں ایسی فعال قوتوں کو وجود میں لانے کا باعث بنتا ہے، جو عالم مثال کی قوتوں کو متأثر کرتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اُس عالم آخرت میں خیر کے واقعات اور جنت کی نعمتیں وجود میں آتی ہیں۔ نعمتوں کی معرفت اور اُن کے نزول کا مشاہدہ دعا کی تاثیر اور اللہ کے دروازے کے کھٹکھٹانے سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔) (حاشیہ)

’’شکر‘‘ اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان اپنی گزری ہوئی عمر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے عجیب و غریب انعامات پر متنبہ نہ ہو، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت کیا گیا ہے کہ جب وہ اُس حج کے بعد مکہ سے واپس لوٹ رہے تھے، جس کے بعد انھوں نے کوئی حج نہیں کیا تو انھوں نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ عطا کرتا ہے جس کو چاہے جو چاہے۔ مَیں اس ’’وادیٔ ضجنان‘‘ میں اپنے والد خطاب کے اونٹ چراتا تھا اور وہ بڑے سخت مزاج آدمی تھے۔ مَیں جب کام کرتا تھا تو مجھے تھکا دیتے تھے اور جب مَیں کوتاہی کرتا تھا تو میری پٹائی کرتے تھے۔ اور آج میری صبح شام ایسے گزر رہی ہے کہ میرے اور اللہ کے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے کہ جس سے مَیں ڈرتا ہوں‘‘۔ (الاستیعاب علیٰ ہامش الإصابۃ، ترجمہ عمر، ج: 2، ص: 472) (ابواب الاحسان، باب: 4، المقامات والاحوال)

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri

Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur

Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences

Related Articles

تقریب ِافتتاح صحیح بخاری شریف

مورخہ ۱۳؍ شوال المکرم ۱۴۴۳ھ / 15؍ مئی 2022ء بروز اتوار کو ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ادارہ میں دورۂ حدیث شریف کے طل…

Anees Ahmed Sajjad Nov 13, 2022

تقریب ِتکمیل صحیح بخاری شریف

ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں ہرسال دورۂ حدیث شریف کی کلاس ہوتی ہے۔ اس کلاس میں صحیح بخاری شریف کا درس ہوتا ہے۔ امسال حضرت اقدس مولانا مفتی شاہ عبدالخالق آزا…

Admin Mar 14, 2021

کائنات میں موجود کثرتِ اشیا کی حقیقت!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور 15؍ جنوری 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے…

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri Feb 17, 2021

شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری

رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…

Admin Oct 13, 2022