یہ سب کچھ منظم منصوبہ بندی و حکمتِ عملی کے تحت ہو رہا تھا۔ برطانیہ نے اس کے لیے پاکستان میں ایک اَور این جی او پیدا کی، جس کا نام ’’ادارہ تعلیم و آگہی‘‘ رکھا گیا۔ اس ادارے نے (Annual Status of Education Report ASER)کے عنوان کے تحت سالانہ رپورٹس کے اجرا کا آغاز کیا۔ برطانیہ نے ان رپورٹس کی اشاعت کے لیے 13 لاکھ پائونڈز خرچ کیے۔ محکمہ تعلیم و بیوروکریسی پر خصوصی نوازشات بھی کی جاتی رہیں، جن میں انھیں لندن کانفرنس کے نام پر مدعو کرنا اور انھیں وہاں کی مفت سیر کرانا شامل ہے۔
سابق وفاقی وزیر بلیغ الرحمن، پنجاب کے سابق وزیر سکولز رانا مشہود خاں بیوروکریسی کے ہمراہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں اور اب موجودہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، پنجاب کے وزیرِ سکولز مراد راس لندن یاترا کر کے آئے ہیں۔ برطانیہ نے اس تعلیمی مہم کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے کرایا، جس کے لیے ڈیفیڈ نے آکسفورڈ پالیسی مینجمنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا، ٹی او آر طے ہوئے۔ نومبر 2017ء میں سروے کرانے کے لیے گیلپ کی خدمات حاصل کی گئیں اور پھر جنوری 2017ء میں اس سروے کو شائع کرکے میڈیا میں دوبارہ پروپیگنڈا کیا گیا۔
برطانیہ نے یہ سروے کرانے کے لیے بھی دس لاکھ پائونڈز خرچ کیے۔ ’’الف اعلان‘‘ آئے روز ڈیٹا جاری کرتا اور میڈیا میں خبریں شائع ہوتیں اور اس اشاعت کے لیے برطانیہ کو براہِ راست کوئی خرچہ بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے صوبائی و قومی اسمبلی کے 46 ایم پی ایز اور ایم این ایز کے انٹرویوز کیے گئے، جس میں ’’الف اعلان‘‘ کی اس مہم کو سراہا گیا۔’’الف اعلان‘‘ چند سالوں میں ہی تعلیمی شعبے میں سرایت کر گیا اور لاکھوں برطانوی پائونڈز کی چمک نے بہت سے اہلِ علم کو بھی ’’الف اعلان‘‘ کا گرویدہ بنا دیا۔ مجھے حیرانی ہے کہ حکومت نے سرکاری سطح پر آج تک اعداد و شمار کو کائونٹر چیک کرنے کی زحمت تک نہیں کی، بلکہ برطانیہ کے تیار کردہ اعداد و شمار پر ہی اکتفا کیا۔
تعلیم پر تزویراتی سرمایہ کاری کے تناظر میں برطانیہ کی طرف سے اس پراجیکٹ کے علاوہ ’’پنجاب ایجوکیشن سپورٹ پروگرام 2‘‘ کے لیے 38 کروڑ 42 لاکھ 8 ہزار 83 پائونڈز خرچ کیے گئے۔ یہ پراجیکٹ مارچ 2019ء میں مکمل ہوگیا۔ خیبرپختونخوا ایجوکیشن سیکٹر پروگرام پر 28 کروڑ 32 لاکھ پائونڈز خرچ کیے گئے۔ یہ پراجیکٹ سال 2020ء میں مکمل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے ’’علم آئیڈیاز ایجوکیشن انوویشن پروگرام فیز2‘‘ پر 25 کروڑ 8 لاکھ پائونڈز خرچ کیے اور یہ پراجیکٹ بھی سال 2019ء مکمل ہوا۔یہ اعداد وشمار اُس سوال کے جواب کے تناظر میں پیش کیے ہیں، جس میں برطانیہ نے تعلیم پر سرمایہ کاری کو تزویراتی مفادات کے ساتھ جوڑا تھا۔
بنیادی طور پر پاکستان میں نصابِ تعلیم پر برطانیہ نے کافی حد تک کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ یہ کنٹرول‘ پالیسی ساز اداروں کے ذریعے سے کیا گیا ہے، جس کا بنیادی ہدف جدید کالونیل عہد میں بھی نوآبادیاتی عہد کے تعلیمی ڈھانچے کو باقی رکھنا ہے۔ اس کالونیل تعلیمی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے مزید سرمایہ کاری کی جاتی رہے گی۔ یہ سرمایہ کاری سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے نہیں ہوگی۔ کیوںکہ برطانوی استعمار نے اس خطے میں ہمیشہ سائنسی علوم کے مقابلے پر دیگر علوم کی سرپرستی کی ہے۔
میرے خیال میں برطانیہ کی یہ سرمایہ کاری پاکستان کی معاشی منڈی کو کنٹرول میں رکھنے کا بھی ایک خفیہ منصوبہ ہے، جس کے لیے پاکستان کی اشرافیہ یعنی سیاست دان اور بیوروکریٹس بہ طور آلۂ کار کردار نبھا رہے ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے وفاقی وزیرِتعلیم اور پنجاب و خیبرپختونخوا کے وزرائے تعلیم 18؍ جنوری 2019ء کو لندن پہنچے اور ایجوکیشن کانفرنس کے موقع پر ڈیفیڈ کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں کیں۔ تعلیمی منصوبوں پر طویل گفتگو ہوئی، جس میں لا محالہ وزرائے تعلیم نے پاکستان میں برطانوی امداد کی خوب پذیرائی بھی کی ہوگی۔ ’’الف اعلان‘‘ کے ذریعے سے اس خطے کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف چینلز پر اشتہارات چلائے گئے تھے، جس برعظیم پاک و ہند پر انگریز سامراج نے 200 سال تک قبضہ کیے رکھا اور معاشی لوٹ کھسوٹ کی اس کی تاریخ کے خلاف تعلیم کی آڑ میں اشتہارات چلائے گئے۔ ’’الف اعلان‘‘ نے یہ کیوں نہیں چلایا کہ برطانوی سامراج نے اس خطے کے تعلیمی نظام کو برباد کیا۔ انگریزی زبان کے ذریعے سے ہمیں محکوم کیا گیا۔ یہاں کے تعلیمی نظام کو غیرپیداواری فلسفے کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا اور پھر اسی تعلیمی نظام کی مضبوطی کے لیے 70 سال تک حکومت کی مدد کرتا رہا۔
آج یہی برطانیہ ڈیفیڈ کے ذریعے سے یہاں کے نصاب کو کنٹرول کر رہا ہے، تاکہ برطانوی سامراج کی سیاہ کاریوں پر پردہ پوشی برقرار رکھی جائے اور تعلیم کا مقصد صرف ملازمتیں پیدا کرنا ہے، تاکہ اور ورکنگ کلاس کو سماج کی اشرافیہ کلاس کے تابع داروں کی فوج تیار ہوتی رہے۔ برطانیہ یو کے ایڈ اور ڈیفیڈ کے پراجیکٹس کے تحت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو فنانس کر رہا ہے اور یہ فاؤنڈیشن پرائیویٹ سکولوں کا نیٹ ورک چلانے والوں کو فنڈنگ کرتا ہے، یعنی برطانیہ پاکستان میں فنڈنگ پرائیویٹ اداروں اور ’’الف اعلان‘‘ جیسی این جی اوز کو کرتا ہے اور سوالات و اعتراضات اپنی اس طفیلی این جی او کے ذریعے سے سرکاری اداروں پر اٹھائے جاتے ہیں۔
پاکستان کا پورا تعلیمی ڈھانچہ دراصل بینکنگ ایجوکیشن سسٹم پر استوار ہے، جس کی بنیاد پر ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ یہی جدید نوآبادیاتی عہد کا ایجنڈا ہے۔ قوموں کے اذہان کو روشنی بخشنے میں یہاں کے نظامِ تعلیم بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ جاپان اور چین جیسے ایشیائی ممالک کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی کمزور معیشت ہی اس خطے میں عالمی استعمار کی بقا کی ضمانت ہے اور معیشت کو کمزور رکھنے کے لیے انتشار کو ہمیشہ زندہ رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں نالج، نصاب اور ذہن کو ڈی کالونائزڈ کیسے کیا جائے؟ اس پر تفصیل آئندہ کالم میں لکھوں گا۔
Muhammad Akmal Soomro
محمد اکمل سومرو
Related Articles
حضرت مولاناعبداللہ لغاریؒ
امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے قریبی ساتھیوں میں ایک اہم نام حضرت مولانا عبد اللہ لغاریؒ کا بھی ہے۔ ان کا تعلق ضلع گھوٹکی (صوبہ سندھ) کے ایک گائوں ’’دا…
علم دوست و علم نواز عباسی خلیفہ
ہارون الرشید خلافتِ بنوعباس کے تیسرے خلیفہ، ابوجعفر منصور کے بیٹے محمد مہدی تقریباً دس سال مسند ِخلافت پر فائز رہے۔ محمدمہدی فرض شناس حکمران کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کا دو…
علامہ ابن خلدونؒ کا نظریۂ تعلیم
انسان علم و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے دیگر حیوانات سے ممتاز ہے۔ فکری قوت و استعداد کی وجہ سے وہ اُمورِ معاش پر غور کرتا ہے۔ دیگر اَبنائے جنس کے ساتھ معاملات …
مامون الرشید کا علمی ذوق
بیت الحکمت بغداد کا علمی ادارہ اگرچہ ہارون الرشید نے قائم کیا تھا،لیکن اس کو کمال کی بلندیوں تک پہنچانے اور ایک تحقیقی ادارہ بنانے کا سہرا مامون الرشید کے سر ہے۔ مامون ا…