عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔
(حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اپنے چچائوں کے ساتھ ’’جب کہ ابھی مَیں نوعمر تھا‘‘ حِلف المطیّبین (حلف الفضول) میں شریک ہوا تھا۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں۔ اگرچہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیے جائیں‘‘۔) (مسند احمد: 1676)
زیرنظر ارشادِ مبارک رسول اللہﷺ معاہدۂ حلف الفُضول کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ یہ معاہدہ رسول اکرمؐ کی عمر مبارک کے بیسویں سال 590ء (ماہ ذی قعدہ) میں طے ہوا۔ یہ معاہدہ حربِ فجار کے بعد قریش اور بنو قیس کے درمیان ہوا، جو عرب معاشرے میں انسانی حقوق، امن و امان اور معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے تاریخ انسانیت کی اہم دستاویز ہے۔ یہ معاہدہ دینِ اسلام کی جامع سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ ایک اَور موقع پر رسول اللہؐ نے فرمایا تھا کہ اگر آج بھی اس جیسے معاہدے کی طرف مجھے بلایا جائے، مَیں اسے فوراً قبول کرلوں گا (البیہقی، حدیث: 13080)۔ اس معاہدے کی شرائط میں عربوں نے یہ طے کیا کہ:
1۔ ہم مظلوموں کا ساتھ اس وقت تک نبھاتے رہیں گے، جب تک ان کو ان کا حق نہ دلا دیا جائے، خواہ وہ کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہوں۔
2۔ ملک میں امن و امان قائم کریں گے۔
3۔ مسافروں کی حفاظت اور غریبوں کی مدد کریں گے۔
4۔ کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہ رہنے دیں گے۔
یہ شرائط مقاصد ِنبوت کی عکاس ہیں اور ایک مستحکم معاشرے کے قیام کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ اسی اہمیت کی بنا پر نبی اکرمﷺ اس معاہدے کو اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں اور اپنے عہد ِمبارک میں اس جیسے معاہدے کے تشکیل پانے کو پسند فرماتے ہیں۔ دینِ اسلام جس معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے، اس کے یہی اصول ہیں۔ دینِ اسلام کی یہ حقیقی تصویر ہے۔ آج دینِ اسلام کا ایسا تعارف گہنا گیا ہے۔ مسلمان عملی طور پر ان اُمور سے متعلق اپنی ذمہ داری کو بھول چکے ہیں۔ مسلمانوں کی اس غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دین دشمن اور ظلم پسند لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ دینِ اسلام کی تعلیمات عدل و انصاف اور امن و آشتی پر مبنی معاشرے کے قیام کے بجائے انارکزم کا سبب ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس عہد ِنبویؐ، دورِ خلفائے راشدین ؓاور پوری تاریخِ اسلام ان ہی خطوط پر نظم مملکت کے قیام پر شاہد ِعدل ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ غلبۂ دین کے لیے ان خطوط پر مبنی علمی وعملی کوششوں کو بروئے کار لایا جائے۔
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
غیرمسلم کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم
عَنْ أَسْمَائَ، قَالَتْ: قَدِمَتْ أُمِّی وَ ھِی مُشْرِکَۃٌ فِیْ عَھْدِ قُرَیْشٍ و مُدَّتِھِمْ، إِذْ عَاھَدُوْا النَّبِیِّ ﷺ، مَعَ أَبِیْھَا، فَاسْتَفْتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّی قَدِمَتْ وَ ھِیَ رَاغِبَۃٌ، أفأصِلُھا؟ قَالَ: ’’نَعَمْ صِلِیْ…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…