يا بَني إِسرائيلَ اذكُروا نِعمَتِيَ الَّتي أَنعَمتُ عَلَيكُم وَأَوفوا بِعَهدي أوفِ بِعَهدِكُم وَإِيّايَ فَارهَبونِ (40:2)
(اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے وہ احسان جو میں نے تم پر کیے۔ اور تم پورا کرو میرا اقرار تو میں پورا کروں تمھارا اقرار۔ اور مجھ ہی سے ڈرو۔)
شروع سورت سے آیت 39 تک یہ حقیقت واضح کی گئی کہ قرآن حکیم متقین کی ایک ایسی جماعت تیار کرتا ہے، جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق خلافت اور حکومت کا نظام قائم کرے۔ آیت 21 سے انسانیت پر ہونے والے انعامات کا ذکر ہے۔ پھر آیت 30 سے حضرت آدمؑ کی پیدائش کا مقصد؛ خلافتِ ارضی کی ذمہ داریاں دینے اور اس حوالے سے علوم عطا کرنے کا تذکرہ تھا۔ اس طرح آغاز ِآدمیت سے لے کر بنی اسرائیل تک کی انسانی تاریخ کے بنیادی اساسی امور واضح کر دیے گئے۔
يا بَني إِسرائيلَ: اس آیت (40) سے انسانی تاریخ کی ایک اہم جماعت بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے۔ اسرائیل‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام ہے۔ اس کا معنی ’’عبداللہ‘‘ہے۔ ان کی اولاد کو ’’بنی اسرائیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ چناںچہ پہلے اُن پر ہونے والے انعاماتِ الٰہیہ کا ذکر ہے۔ پھر ان انعامات کے باوجود انھوں نے خلافتِ ارضی کی ذمہ داریوں سے جس طرح روگردانی کی، اُس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس سورت میں تین دفعہ ’’یا بنی اسرائیل‘‘ آیا ہے۔ سب سے پہلے اس آیت (40) سے لے کر 46 تک بنی اسرائیل کی اصولی خرابیوں اور کوتاہیوں کا ذکر ہے۔ پھر آیت 47 سے دوسری دفعہ ’’یا بنی اسرائیل‘‘ کہہ کر آیت 121 تک ان اصولی خرابیوں کی مزید تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ پھر تیسری دفعہ ’’یا بنی اسرائیل‘‘ کہہ کر آیت 122 تک 150 تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اصل تحریک سے روگردانی اور نبی اکرمؐ کی مخالفت سے متعلق بنی اسرائیل کی گمراہیوں اور خرابیوں کو واضح کیا گیا ہے۔
قرآن حکیم میں بنی اسرائیل سے متعلق ان تمام تر تفصیلات کا بنیادی مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اب اس دور میں تورات اور انجیل جیسی کتابوں کے حاملین یہود و نصاریٰ اس قابل نہیں رہے کہ وہ دنیا کی قیادت اور رہنمائی کے فرائض سرانجام دے سکیں۔ اس لیے کہ ان میں انسانیت دشمن رویے، بداَخلاقیاں اور بدکرداری کی ایسی حالتِ بد پیدا ہوچکی ہے، جو کسی طرح بھی کسی قومی نظام یا بین الاقوامی حکومت و خلافت کی اہلیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس لیے قرآن حکیم کی صورت میں ایک جامع کتابِ مقدس کا نزول اس دور کا تقاضا ہے، تاکہ اعلیٰ اَخلاق کے حامل متقین کی جماعت پیدا کی جائے، جو قوموں کی قومی اور بین الاقوامی اجتماعیت کو خلافتِ خداوندی کی اساس پر استوار کرے اور دینِ حق کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ چناںچہ آیت 151 سے آخر سورت تک قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اعلیٰ اَخلاق اور ترقی یافتہ ارتفاقات کی تفصیلات کا بیان ہے۔
اذكُروا نِعمَتِيَ الَّتي أَنعَمتُ عَلَيكُم : بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے سب سے پہلے انھیں اپنے انعامات یاد کرائے گئے۔ قرآن حکیم میں ’’نعمت‘‘ سے مراد علم و حکمت اور اُس کی اساس پر قائم نظام اور قانون ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل میں ہزاروں انبیا علیم السلام بھیجے گئے۔ ان میں اولوالعزم انبیا کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (22:12) (ہم نے انھیں حکم اور علم عطا کیا) چناںچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر علم و حکمت کی بارش کرتے ہوئے تورات، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل کا نزول ہوا۔ پھر ان کتبِ مقدسہ پر عمل کرنے کی صورت میں فرعون صفت حکمرانوں سے نجات دلائی اور حکومت اور خلافت عطا کی۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ایک طویل عرصے تک شام کے علاقے میں انھیں حکمرانی حاصل رہی۔ دیگر بہت سے انعاماتِ الٰہیہ ہیں، جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔
وَأَوفوا بِعَهدي أوفِ بِعَهدِكُم: بنی اسرائیل کو دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کریں۔ انسانی سماج اللہ سے کیے ہوئے عہد اور دیگر انسانوں سے ہونے والے سماجی معاہدات کو پورا کرنے سے ہی ترقی کرتا ہے۔ بنی اسرائیل سے تورات میں خدا پرستی اور انسان دوستی سے متعلق احکاماتِ الٰہیہ کو پورا کرنے کا پختہ عہد اور معاہدہ ہوا تھا۔ وہ اللہ کے حکم کو پورا کریں گے تو اللہ بھی انھیں علم و شعور اور حکمرانی عطا کیے رکھے گا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’توریت میں (اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے) یہ قرار کیا تھا کہ تم توریت کے حکم پر قائم رہو گے اور جس پیغمبر کو بھیجوں، اُس پر ایمان لا کر اُس کے رفیق رہو گے تو ملکِ شام تمھارے قبضے میں رہے گا۔ بنی اسرائیل نے اس کو قبول کرلیا، مگر پھر وہ (اس) اقرار پر قائم نہ رہے۔ (1) بدنیتی کی۔ (2) رشوت لے کر مسئلے غلط بتلائے۔ (3) حق کو چھپایا۔ (4) اپنی ریاست جمائی۔ (5) پیغمبرؑ کی اطاعت نہ کی، بلکہ بعض پیغمبروں کو قتل کیا۔ (6) توریت میں جہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صفت تھی، اُس کو بدل ڈالا۔ اس لیے گمراہ ہوئے۔‘‘
اس آیت میں بنی اسرائیل کی گمراہیوں میں اُصولی خرابیاں؛ نعمتوں کی ناشکری اور معاہدات کی خلاف ورزی کو قرار دیا ہے۔ جن اقوام اور جماعتوں میں معاہدات کی خلاف ورزی کی عادت پیدا ہوجائے، وہ خلافت اور حکومت کی اہلیت کھو بیٹھتی ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد انسانیت سے یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کی اساس پر خلافت قائم کرنے کی اپنے اندر اہلیت اور استعداد پیدا کرے۔ اس آیت میں زوال پذیر قوموں کی پہلی بنیادی خرابی معاہداتِ عمرانی کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
وَإِيّايَ فَارهَبونِ : اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ مال و دولت یا کسی فرعون صفت ظالم طاقت ور سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کتابِ مقدس قرآن حکیم پر ایمان لائیں۔ اس دور میں یہی وہ کتاب ہے، جو علم و حکمت اور عدل و انصاف کا قانون اور نظامِ زندگی بیان کرتی ہے۔ اللہ سے ڈریں اور اس کتابِ مقدس کی تعلیم پر عمل کریںاور اپنے اندر خلافت و حکومت کی اہلیت پیدا کریں۔ اس دور کی کامیابی اسی بات میں مضمر ہے۔
Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences