بر عظیم ہندوستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا، جسے ولی اللّٰہی جماعت کے افراد نے متأثر نہ کیا ہو۔ یہ تحریک‘ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے وہ واحد تحریک تھی، جس نے نہ صرف یہ کہ دور کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بروقت اور معروضیت سے ہم آہنگ رہنمائی فراہم کی، بلکہ وطنِ عزیز کے مستقبل کی ضروریات کے پیشِ نظر باشعور اجتماعیت بھی قائم کی۔ مولانا لیاقت علی الٰہ آبادیؒ بھی اسی گلشن کے خوشہ چیں ہیں، جنھوں نے تحریکِ بالا کوٹ کے دوران الٰہ آباد میں نہ صرف یہ کہ رائے عامہ کو ہموار کیا، بلکہ تحریکِ جہاد میں عملی طور پر سرگرم رہے۔
مولانا لیاقت علیؒ 5؍ اکتوبر 1817ء کو مہرگائوں (الٰہ آباد) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدِ گرامی کا نام قاضی مہر علی تھا۔ ان کا شمار علاقے کے با اثر افراد میں ہوتا تھا۔ خاندانی پیشہ کاشت کاری تھا۔ مولانا لیاقت علیؒ کے چچا دائم علی فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے ہی مولانا موصوفؒ کی پرورش کی اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر جلد ہی اپنے علاقے میں معروف ہوگئے۔ اپنے چچا جان کی ایما پر ہی فوج میں ملازمت بھی اختیار کرلی تھی، لیکن جلد ہی چھوڑ دی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بالا کوٹ میں تحریکِ مجاہدین سرگرم تھی۔ تحریکِ مجاہدین نے ہندوستان بھر میں بدیسی حکمرانوں سے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ مولانا موصوف بھی حضرت سیّداحمد شہیدؒ سے بہت زیادہ متأثر تھے۔ اسی بنا پر ہی انھوں نے فوج سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ اس تحریک کے دوران جہاں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ دہلی میں بیٹھ کر مجاہدین کی امداد میں منہمک تھے، وہیں ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اس تحریک کے لیے رائے عامہ ہموار کی جارہی تھی۔ اس سلسلے میںمولانا خرم علی بلہوریؒ نے ایک جہادیہ نظم تحریر فرمائی، جسے مولانا لیاقت علیؒ کی کاوشوں سے شائع کیا گیا اور ہر خاص و عام کو اس کی ترسیل کا نظام بھی بنایا۔ اسی دوران مولانا موصوفؒ نے ایک ’’منشور اعلان‘‘ بھی چھپوایا، جس میں تحریکِ مجاہدینِ بالا کوٹ کی کاوشوں کو سراہا۔ اس طرح اس خا ص تحریک کو عوامی بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔
تحریکِ مجاہدین کے بعد بھی اپنے وعظ و تقاریر کے ذریعے باشندگانِ بعید الوطن (انگریز) کے خلاف ضرور بات کرتے تھے اور انگریزوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرکے لوگوں میں آزادی کا شعور بیدار کرتے رہتے تھے۔ موصوف اپنے ارادت مندوں کو سلسلۂ قادریہ میں بیعت فرماتے تھے اور حریت کے جذبے سے سرشار فرماتے رہتے تھے۔
یہ ولی اللّٰہی تحریک کا ہی ایک خاص اثر تھا کہ مولانا لیاقت علیؒ نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ 9؍مئی1857ء کو میرٹھ کی چھائونی میں بغاوت کا اعلان ہو گیا تو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جیسے ہی یہ خبر الٰہ آباد میں پہنچی تو ایسا محسوس ہوا جیسے دبی ہوئی چنگاری نے دوبارہ ہوا پکڑ لی ہو۔ 5؍ جون 1857ء کو الٰہ آباد میں بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان ہوگیا۔ 6؍ جون کو مولانا موصوفؒ الٰہ آباد پہنچے اور مجاہدین کی قیادت کی۔ اس دوران تمام انتظامی اُمور کی سرانجام دہی کے لیے ضروری تھا کہ کسی ایک جگہ کو مرکز بنا کر کام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ’’خسرو باغــ‘‘ کو مرکز بنایا گیا۔ اسی مرکز کے تحت تمام باصلاحیت نوجوانوں کو اکٹھا کیا اور ان میں انتظامی اُمور کو تقسیم کیا۔ یوں ایک عارضی حکومت کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد دہلی کی سلطنت کی آزادی کے لیے کام کرنا تھا۔ اس انقلابی حکومت کے قائم ہونے کا اثر یہ ہوا کہ انگریز فوج محض قلعے کے اندر محصور ہو کر رہ گئی تھی۔ مولانا موصوفؒ کے ساتھ نہ صرف مسلمانوں کی اکثریت جمع تھی، بلکہ رام چند نامی ایک ہندو کی سربراہی میں ہندوئوں کی کثیر تعداد بھی آپؒ کے ساتھ ہوگئی تھی۔
جہاد میں حصہ لینے کے لیے ایک اعلان ’’دعوتِ عام‘‘ کے نام سے شائع کروایا۔ جہاد کی دعوت کا یہ پمفلٹ نہ صرف یہ کہ الٰہ آباد میں تقسیم ہوا، بلکہ حیدرآباد دکن، اَوَدھ، بمبئی اور دہلی کے گردو نواح میں بھی تقسیم کیا گیا۔ اس کتابچے میں انگریزوں کے مظالم کا بیان اور قومی و مذہبی ذمہ داریوں کوبڑی تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ مولانا موصوفؒ اپنی تمام تر سرگرمیوں کی اطلاعات بہادر شاہ ظفر کو رپورٹس کی شکل میں دہلی روانہ کرتے رہتے تھے۔ اس تحریک کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ الٰہ آباد کے گردو نواح کے 40 سے زائد علاقے اس عارضی حکومت کے تحت آگئے تھے۔ 16؍ جون 1857ء کو انگریزی فوج اور ان مجاہدین کے درمیان ایک خون ریز معرکہ ہوا، لیکن باقی علاقوں کی طرح یہاں پر بھی غداروں نے اپنا کام دکھایا اور مجاہدین کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ صرف الٰہ آباد میں 6 ہزار حریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور سینکڑوں افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔
الٰہ آباد میں انگریزی قبضہ ہونے کے بعد مولانا لیاقت علیؒ نانا رائو کے شانہ بہ شانہ انگریزوں کے خلاف کانپور میں لڑتے رہے۔ اسی دوران مولانا احمد اللہ مدراسیؒ سے ملاقات ہوئی تو ان کے ساتھ بھی سرگرمِ کارزار رہے۔ مولانا احمد اللہ مدراسیؒ کی شہادت کے بعد 1859ء کو پہلے گجرات اور پھر لاجپور میں قیام کیا۔ 1868ء میں جب ریاست میں ابراہیم محمد یاقوت برسرِ اقتدار آئے تو شرعی احکامات کے مطابق فیصلہ سازی میں مولانا لیاقت علیؒ اور صوفی عبدالاحد لاجپوری پیش پیش تھے۔
اس دوران 1869ء میںانگریز مولانا موصوفؒ کو تلاش کرتے ہوئے لاجپور آئے، لیکن وہ بمبئی روانہ ہو چکے تھے۔ انگریز کی جانب سے 5000 روپے انعام کا لالچ دیا گیا، تاکہ گرفتاری جلد ممکن ہوسکے۔ بالآخر بمبئی میں گرفتاری عمل میں آئی۔ چوں کہ مولاناؒ کی وجہ سے انگریزی فوج کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس لیے واجبی پیشیوں کے بعد مولانا کو جزیرہ انڈیمان بھیج دیا گیا۔ 23 سال تک انڈیمان میں قید رہے۔ قید کے دوران بھی وہاں موجود حریت پسندوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے۔ اسی قید کے دوران 17؍ مئی 1892ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اکابرین کے جذبۂ حریت کو سمجھنے اور شعوری طور پر آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین!)
Tags
Wasim Ejaz
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
امینُ المِلّت سردار محمد امین خان کھوسو ؒ
حریت و آزادی کی تحریکات میں وادیٔ مہران کسی طور بھی وطنِ عزیز کے کسی بھی حصے سے پیچھے نہیں رہی۔ اس نے ہمیشہ ہراوَل دستے کا کام سر انجام دیا ہے۔ سندھ دھرتی کے حریت پسندوں می…
امام الاولیا حضرت حسن بصریؒ
حضرت حسن بصریؒ کا اصل نام حسن بن یسار ہے۔ آپؒ نے رسول اکرم ﷺ کے گھر میں آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت اُم سلمہؓ کی گود میں پرورش پائی۔ حضرت اُم سلمہؓ نہایت عقل مند، سلیقہ شعار، پیکرِ …
حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سرساوی سہارن پوریؒ
برعظیم پاک و ہند کی عظیم خانقاہ‘ خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے بانی حضرت عالی شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ کے پیر و مرشد حضرت شاہ عبد الرحیم سہارن پوریؒ سوات و بُنیر ک…
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری ؒکا سانحۂ اِرتحال
2؍ فروری 2021ء کو ایک افسوس ناک پیغام کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ ولی اللّٰہی تحریکات و شخصیات کے محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے ہیں۔ إنّا للّٰہ و…