عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔(صحیح البخاری: 6133)
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا‘‘۔)
مؤمن کو عقل مند اور دانا ہونا چاہیے اور کسی بھی اِنفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی امر کا فیصلہ حالات و واقعات کے پسِ منظر اور پیشِ منظر کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے۔ کسی سے باربار دھوکہ کھانے کی عادت مؤمنانہ فراست کے خلاف ہے۔ کسی کو باربار ظلم اور استحصال کرنے کا موقع دینا مؤمن کی خوبی نہیں ہوسکتی۔ مؤمن عدل و انصاف کو قائم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جو عیاری سے اس راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے تو مؤمن اسے یہ عمل باربار نہیں کرنے دیتا۔
ابوعزہ شاعر جو حضرت مصعب ؓبن عمیر کا بھائی تھا، وہ نبی ﷺ کے مخالف ان سرکردہ لوگوں میں سے تھا، جو حضورﷺ کے خلاف سازشیں تیار کرتے تھے۔ ابوعزہ توہینِ رسول ﷺ پر مبنی اشعار کہہ کر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے لیے تکلیف کا باعث بنتا تھا۔ یہ غزوۂ بدر میں گرفتار کرلیا گیا تو اس نے معافی طلب کی اور یہ کہا کہ مَیں آئندہ آپ کو نہیں ستائوں گا۔ لیکن رہائی پاتے ہی اس نے پھر حضور ﷺ کے بارے میں توہین آمیز اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اشعار کہنے شروع کردیے۔ غزوۂ اُحد میں یہ دوبارہ پکڑا گیا۔ یہ پھر کہنے لگا کہ آپؐ تو بڑے مہربان اور بڑے بردبار ہیں، آپؐ مجھے چھوڑ دیں ۔ مَیں آپؐ کو پھر نہیں ستائوں گا۔ اس موقع پر رسول اللہﷺ نے یہ گراں قدر جملہ ارشاد فرمایا کہ: ’’مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا‘‘۔
ہمارے خطے کو انگریز سے آزاد ہوئے 74 سال ہوگئے ہیں۔ آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنا خون دیا۔ انگریز کے خلاف جدوجہد کا مقصد آزادی کا حصول تھا اور کسی قوم کی آزادی کا مطلب اس کی معاشی ترقی، سیاسی وحدت، سماجی استحکام، امن و امان کا قیام اور قومی خودمختاری و سا لمیت کا قیام ہوتا ہے۔ مگریہ خواب تاحال شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ ہماری مقتدرہ اور لیڈرشپ پون صدی سے قوم کو حقیقی آزادی کے حوالے سے دھوکہ دیتی چلی آرہی ہے۔ اور ہم قومی مسائل کو شعوری بنیادوں پر تاحال سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے۔
یہ حدیث مبارکہ اس امر پر غور کرنے کی ضرورت کا احساس دِلاتی ہے کہ ہم مقتدرہ کے جھوٹے دعوئوں اور نعروں کی گونج کے سحر سے باہر نکلیں۔ اور اس بات کی رہنمائی دیتی ہے کہ ہم آزادی کے حقیقی مفہوم کو سمجھیں اور باربار دھوکہ دینے والوں اور عہدشکن لوگوں کو پہچانیں۔ اور وطنِ عزیز میں آزادی کی حقیقی روح کو قائم کرنے کے لیے دھوکہ بازوں سے بچنے کی راہ اپنائیں۔
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
عبادات اور اَخلاقیات کا باہمی ربط
عَنْ أبِي ہُرَیْرَۃَ، أِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: ’’أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟‘‘ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِینَا مَنْ لا دِرْھَمَ لَہُ، وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: ’’إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي، یَأْتِي یَ…
علمائے دین کا دنیاپرستوں کی قربت کا نتیجہ (2)
عَن ابنِ عبّاسؓ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ’’إنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِيْ سَیَتَفَقَّہُوْنَ فِي الدِّیْنِ، وَ یَقْرَئُ ونَ الْقُرْآنَ، وَیَقُوْلُونَ: نَأتِي الْأُمَرَائَ فَنُصِیبُ مِنْ دُنْیَاھُمْ، وَ نَعْتَزِلُہُمْ بِدِیْنِنَا، وَ لَا…
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…