سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (84) میں بنی اسرائیل کے میثاقِ عدل کا تذکرہ تھا۔ اس معاہدے کی دو شِقیں تھیں: (1) وہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہائیں گے۔ (2) وہ ایک دوسرے کو اپنے گھروں سے باہر نکال کر جلاوطن نہیں کریں گے۔ درجِ ذیل آیت (85) میں اُن کی طرف سے اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کا ذکر ہے۔
(پھر تم وہ لوگ ہو کہ ایسے ہی خون کرتے ہو آپس میں): بنی اسرائیل نے معاہدے کی پہلی شِق کی خلاف ورزی کی اور اپنے سماج میں ذاتی مفادات اور گروہی طبقات کی بنیاد پر ایک دوسرے کا قتل کرنا شروع کردیا۔ طاقت ور حکمران طبقے دوسری اقوام کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم کے انسانوں کو قتل کرتے تھے۔ اور اس طرح اُن سے مفادات اُٹھاتے تھے۔
(اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو اُن کے وطن سے): بنی اسرائیل نے معاہدے کی دوسری شِق کی بھی خلاف ورزی کی۔ اُن میں سے ایک فرقہ دوسرے فرقے کو وطن سے بے وطن کرنے میں اَغیار کا ساتھ دیتا تھا۔ ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کے لیے دوسری اقوام کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم کے نوجوانوں کو اپنے ہی ملک سے جلاوطن اور بے گھر کردیتے تھے۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ لکھتے ہیں: ’’مدینے میں دو فریق یہودیوں کے تھے: ایک بنی قُریظہ، دوسرے بنی نضیر۔ یہ دونوں آپس میں لڑا کرتے تھے۔ اور مشرکوں کے بھی مدینے میں دو فرقے تھے: ایک اَوس، دوسرے خزرج۔ یہ دونوں بھی آپس میں دشمن تھے۔ بنی قُریظہ تو اَوس کے موافق ہوئے اور بنی نضیر نے خزرج کے ساتھ دوستی کی تھی۔ (آپس کی) لڑائی میں ہر کوئی اپنے منافقوں اور دوستوں کی حمایت کرتا۔ جب ایک کو دوسرے پر غلبہ ہوتا تو کمزوروں کو جلاوطن کرکے اُن کے گھر ڈھاتے (تھے)‘‘۔
(چڑھائی کرتے ہو اُن پر گناہ اور ظلم سے): دوسری اقوام کے ساتھ مل کر اپنے ہی لوگوں پر چڑھائی کرکے سخت گناہ کا ارتکاب کرنا اور ظلم و زیادتی کا معاملہ کرنا یہودیوں کا وطیرہ بن چکا تھا۔
(اور اگر وہی آویں تمھارے پاس کسی کے قیدی ہو کر تو اُن کا بدلہ دے کر چھڑاتے ہو): اُن کی عادت تھی کہ پہلے قوم کے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم کے لوگوں کے ساتھ لڑائی کرتے اور انھیں گرفتار کرواتے تھے۔ پھر تورات میں بیان کردہ قانون کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے لیے مال جمع کرتے اور ان قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے دشمنوں کو فدیے کے طور پر مال دیتے تھے۔
حضرت شیخ الہندؒ مزید فرماتے ہیں: ’’اور اگر کوئی قید ہو کر پکڑا آتا تو سب رَل مِل کر مال جمع کرکے اُس کا بدلہ دے کر قید سے اُس کو چھڑاتے (تھے)‘‘۔
(حال آں کہ حرام ہے تم پر اُن کا نکال دینا بھی): حال آں کہ میثاقِ عدل کی دوسری شِق کے مطابق اُن پر یہ حرام تھا کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو جلاوطن نہ کریں اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کریں۔
امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں ہماری قوم‘ ملک پر مسلط کافروں (انگریزوں) کی صف میں شامل ہو کر مسلمانوں سے لڑتی رہی ہے۔ خاص طور پر انھوں نے جنگِ عظیم اوّل میں انگریز سامراج کے ساتھ دوستی اور موالات کی تھی۔ یہ اُن کے دین کی بہت بڑی کمزوری رہی ہے کہ وہ عیسائی حکمرانوں کے ماتحت رہ کر کام کرتے رہے ہیں۔
لیکن مجھے اس بات پر بڑا فخر ہے کہ ہمارے علمائے دیوبند میں سے ہمارے مشائخ وہ حضرات ہیں کہ جنھوں نے انگریزوں کے ساتھ اس دوستی اور موالات کی قباحت اور خرابی کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ وہ اگرچہ انگریزوں کے ساتھ دوستی کرنے کے اس گناہ میں شریک ہونے سے عام مسلمانوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی پوری طاقت اور قوت سے دین میں خیانت کرنے والے ایسے لوگوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان علمائے حق کی یہ کمزور سی تحریکِ آزادی ٹھنڈی نہیں ہوئی، بلکہ آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بہ تدریج ملک کی آزادی کی یہ تحریک ایک بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، لیکن ہمارے شیخ حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کی وفات (1905ء) کے بعد ہماری جماعت میں جو جمود اور سکون پیدا ہوا، اس نے ہمارے لیے اپنے مقصد کی کامیابی میں بہت زیادہ تاخیر کردی۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم منہ بھر کر فخر کا اظہار کریں، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے مشائخ میں ایسے لوگ بھی تھے، جو ہمارے شیخ المشائخ (حضرت گنگوہیؒ) کی وفات کے بعد اُن کے طریقے پر چلتے رہے۔ وہ جماعت کی اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی قدرت کے مطابق تحریکِ آزادی کے راستے پر چلتے رہے۔ اگر جنگِ عظیم اوّل (1914ء تا 1918ء) مزید دو سال کی تاخیر سے شروع ہوتی تو اس تحریک کو منظم کرنے کے لیے کافی فرصت مل جاتی۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی صورت میں یہ تحریک اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوجاتی۔ اس سست روی کے زمانے میں ہماری جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے، جو رجعت پسند اور گھروں میں دبک پر بیٹھنے والے تھے۔ وہ اپنے مقصد اور دل کی بات واضح طور پر بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس لیے کہ جدوجہدِ آزادی کے امور کے لیے ایک جماعت پورے طور پر قائم تھی۔ نیز جدوجہد کا یہ کام صرف ہمارے شیخ (مولانا محمودحسنؒ) تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ اُن کے ساتھ حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کے متبعین کی ایک جماعت اور مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کے متبعین کی ایک جماعت _ مثلاً مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری ہیں _پورے طور پر شامل رہے۔ وہ ہمارے شیخ، شیخ الہند (محمودحسنؒ) کے حجاز جانے کے بعد مجاہدین آزادی کے سربراہ اور رئیس مقرر ہوئے تھے۔
ہمارے شیخ مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ نے (1857ء کے بعد) اپنے سکون و اطمینان کے زمانے میں (تحریک ِآزادی کے حوالے سے) ایسے کام کیے ہیں، جن کا اس وقت اظہار کرنا مناسب نہیں ہے۔ گھروں میں بیٹھنے والے رجعت پسند لوگوں کے مکر و فریب کو توڑنے اور ان کے باطل دعوؤں کی تردید کے لیے یہ بات کافی ہے کہ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ جیسے لوگ ہمارے شیخ (حضرت گنگوہیؒ اور حضرت شیخ الہندؒ) کی سیاسی جماعت میں پورے طور پر شامل رہے ہیں‘‘۔ (الہام الرحمن فی تفسیر القرآن)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
Violation of laws and constitution; A Habit of Jews
The previous verses (87-90) of Surah Al-Baqarah mention the corruption of the Israelites, who continuously rejected comprehensive religious teachings sent by Allah, cont…
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
فکری گمراہی کی و جہ سے عملی سیاست کا فساد
سورۃ البقرہ کی گزشتہ آیات (97 تا 99) میں واضح کیا گیا کہ ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے بنیادی حقائق میں سے ایک حضرت جبرائیل علیہ السلام کی تاریخی حقیقت کو ماننا ہے، جب کہ یہود…