؍ فروری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! آج ہم جس زوال کی حالت میں ہیں، اس کے بنیادی اسباب انبیا علیہم السلام کی تعلیمات سے اِنحراف ہے۔ جو احکامات اللہ تبارک و تعالیٰ اور حضور اقدس ﷺ نے ہمیں عنایت فرمائے ہیں اور اس کے مطابق ایک مسلمان کو سچا مؤمن اور مسلمان بننا ہے، ہم اپنے اجتماعی معاملات میں خاص طور پر اس سے رُوگردانی کیے ہوئے ہیں۔ انفرادی معاملات بھی اگرچہ دگرگوں ہیں کہ ہم اپنی ذاتی تہذیب اور شخصی تربیت کے لیے بھی سوائے رسمی اعمال کے اور کچھ نہیں کرتے ہیں۔ چناں چہ حقیقی طو رپر جس سے اپنے نفس کی تہذیب ہوتی ہے، یا شخصی سیرت و کردار پیدا ہوتا ہے، اُس کی طرف توجہ نہیں دیتے، لیکن پھر بھی واعظین اور مبلغین دینِ اسلام کی تعلیمات کے وہ پہلو جو فرد اور شخص سے متعلق ہیں، اس پر عام طور پر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اُس پر عمل کس درجے میں ہے اور کس حد تک ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے منبر و محراب سے، ہمارے مذہبی اور دینی رہنماؤں کی طرف سے اجتماعی معاملات سے متعلق جو شریعت کے احکامات اور نبوی طریقۂ کار اور سیاسی و معاشی حکمتِ عملی ہے، اس پر سِرے سے کوئی گفتگو نہیں کی جاتی۔ زیادہ سے زیادہ صحابہؓ کی عقیدت کے عنوان سے کچھ گفتگو ہوجاتی ہے۔ ریاستِ مدینہ کے حوالے سے کچھ خواہشات اور تمناؤں کا اِظہار کیا جاتا ہے، لیکن ریاستِ مدینہ کی تشکیل اور اس سے پہلے جماعتی زندگی کی تعلیم و تربیت میں رسول اللہ ﷺ نے جس طریقے سے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی اور انھیں ایک ایسی قوم میں ڈھال دیا کہ جو نہ صرف اپنے خطے، ملک اور قوم کے لیے ترقی کا باعث بنی، بلکہ دنیا بھر میں نبی اکرمؐ کی نائب بن کر دین کے سیاسی اور معاشی غلبے کے لیے یہ جماعت پھیلی۔ انھوں نے قیصر و کسریٰ کے نظاموں کو توڑا اور دینِ اسلام کے حقانی نظام کو غالب کرنے کے لیے عظیم الشان جدوجہد اور کوشش کی۔ جن تعلیمات کی اَساس پر ایسا کیا جانا ممکن ہے، اُن پر ہم گفتگو ہی نہیں کرتے۔ اس کے حوالے سے ہمارے اندر کوئی فکر نہیں ہوتی۔ صرف خواہش ہے کہ ہم بھی دنیا کی سپر طاقتوں کو توڑ کر اسلام کا نظام غالب کریں، لیکن دنیا میں خواہشات سے کچھ نہیں ہوتا۔
جس دین کے ہم پیروکار ہیں، اس دین کی تعلیمات کے بنیادی تصورات، بنیادی افکار اور اُن کا بیان کردہ سسٹم جب تک ہم خود نہیں سمجھیں گے، اُس وقت تک ہماری اجتماعی زندگی کسی طور درست نہیں ہوسکتی۔ انبیا علیہم السلام اپنی قوم کی زبان میں ہی قوم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور اجتماعی زندگی کا خوگر بناتے ہیں۔ ہر فرد کو آزادیٔ رائے کے ساتھ اجتماعی معاملات میں اپنے حق کے استعمال کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ پوری دیانت داری کے ساتھ کسی بھی اجتماعی معاملے کے بارے میں معروضی حقائق اور موضوعی اُصولوں کو سامنے رکھ کر ایک نپی تلی رائے قائم کرے‘‘۔
آزادیٔ رائے اور اجتماعی مشاورت کی اہمیت
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’فرعون نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’‘‘ (-40: المومن: 29) کہ میں تم کو جو رائے سجھاتا ہوں، وہی رائے تم رکھو۔ اس سے ہٹ کر اِدھر اُدھر مت دیکھو۔ ایسے معاملات کی انبیا علیہم السلام مذمت کرتے ہیں۔ رائے وہ ہے، جو آپ کی اپنی ہے۔ کسی کے دباؤ، پروپیگنڈے سے بنائی گئی رائے آپ کی اپنی نہیں ہے، وہ کسی دوسرے کا لقمہ ہے، جو تمھارے منہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ لقمہ تو منہ میں جاتا ہے اور سوچ اور رائے کانوں کے ذریعے سے دماغ میں جاتی ہے۔ آج کل تو سوشل میڈیا کے زمانے میں رائے پر اثرانداز ہونے کے بہت سے حربے بن گئے ہیں، جس میں تخیلات و توہمات اور لایعنی تعقلات کی بنیاد پر رائے سازی کا باقاعدہ ایک فراڈی نظام وجود میں آچکا ہے۔ خاص طور پر اس دور میں جب کہ فرعون خصلت سامراجی ممالک چاہتے ہیں کہ جو اُن کے خیال کے مطابق پست اور ذلیل سمجھے جانے والے ممالک اور اقوام ہیں، وہ ہمارے اُگلے ہوئے کو چاٹتے رہیں۔ ہم اُن کا استحصال کرتے رہیں۔ جو رائے ہم چاہیں، وہی رائے وہ رکھیں۔
ایک مسلمان کی رائے آزاد ہوتی ہے۔ کسی شیطان، کسی سامراجی طاغوتی قوت کی بنیاد پر رائے نہیں بنتی۔ قرآن اُسے اپنی عقل و شعور کے استعمال کے ساتھ سوچ اور فکر کی دعوت دیتا ہے کہ کیا تم خود غور و فکر نہیں کرتے؟ ’’و فی انفسکم افلا تبصرون ‘‘ (-51 الزاریات: 21) اپنی ذات میں غور کرو۔ اور آفاق میں غور کرو۔ گرد و پیش کے حقائق پر غور و فکر کرو۔ پھر رائے قائم کرو۔ اور جب صحیح رائے قائم کرنے والی جماعت، قوم، نسل وجود میں آجائے تو پھر اُن آرا کے مابین ایک باقاعدہ مشاورت کا نظام ضروری ہے۔ اگر ہر فرد اپنی اپنی سوچی ہوئی رائے پر اڑا رہے، اور وہ یہ سمجھے کہ چوںکہ اُس نے آزاد رائے قائم کی ہے، اس لیے باقی تمام لوگوں کی آرا پر اُسے تسلط حاصل ہے۔ یہ غلط سوچ ہے۔ بھئی! جیسے تمھاری رائے آزاد ہے، ایک دوسرے حریت پسند کی رائے بھی تو آزاد ہے۔ تیسرے کی بھی تو آزاد ہے۔
اجتماعی معاملے میں تمام کی آرا کو سامنے رکھا جائے۔ کیوں کہ جب ایک اجتماعی نظام میں سب کی حیثیت مساوی ہے تو سب کی اجتماعی رائے سامنے آنی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیشہ اجتماعی فورم بنایا جاتا ہے۔ اُسے مجلسِ مشاورت کہیں یا آج جدید دور میں اُسے پارلیمنٹ یا سینٹ کہیں یا کوئی اَور، جو نام بھی رکھ لو، اصطلاح گھڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اصل معنویت ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی دائرۂ کار ہوتا ہے۔ رائے لینے کا عمل فراڈ اور دھوکے کی بنیاد پر نہ ہو۔ جب بامعنی مشاورت ہوجائے تو اس مشاورت کا لازمی نتیجہ یہ ہو کہ ایک ایسی اتھارٹی وجود میں آئے جو تمام آرا کو سم اپ کرکے سب کے اجتماعی مفاد کی ایک کلی رائے قائم کی جائے، اُس کی بنیاد پر ایک قانون، ایک ضابطہ، ایک طریقۂ کار وضع کریں کہ یہ حکم ہے، یہ فیصلہ اور عزم و ارادہ ہے۔ پھر اس کا نفاذکیا جائے‘‘۔
خود مختاری کی بنیاد پر آزادانہ فیصلوں کی اہمیت
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ معاشرے کا اجتماعی نظام ’’رائے کلی‘‘ (اجتماعی مفاد) کی اَساس پر بننا چاہیے۔ یعنی ایسا قانون، ایسا ضابطہ، ایسی جامع اور نپی تلی رائے، جو اُس سوسائٹی میں بسنے والے، اُس قوم میں رہنے والے تمام افراد کی بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب‘ ضرورت کو پورا کرے۔ ان کے سیاسی، معاشی، اجتماعی اور سماجی مسائل حل کرے۔ اُن کی مشکلات کو دور کرے۔ رائے کلی کی بنیاد پر ایک متفقہ آئین اور دستور ہو، جو حقیقی مشاورت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو، نہ کہ کسی سامراجی نظام کی طرف سے آپ کے منہ میں لقمہ دیا گیا ہو۔ ایسا قانون نہ ہو کہ آپ کی پارلیمنٹ کو عالمی سامراجی مفادات کے مطابق بتایا گیا ہو، آئی ایم ایف کا دباؤ ہو، فیٹف یہ کہہ رہا ہے، اقوامِ متحدہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ قانون آپ نے اپنی پارلیمنٹ سے منظور کرانا ہے۔ یہ تو ان کے مفادات کا قانون اور ضابطہ ہوگا، نہ یہ کہ کسی قومی مفاد کے تناظر میں وہ قانون سازی ہو گی۔
قانون سازی تو وہ ہوتی ہے، جو دراصل سوسائٹی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے قومی بامعنی مشاورت سے وجود میں آئے۔ جو باہر سے ہدایات پر آپ پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے، تو وہ جبر تو ہوسکتا ہے۔ آپ یہ کہیں گے کہ جی مجبور ہیں، ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، جیسے ہمارے منسٹر صاحب کہہ رہے ہیں جی کہ ’’آئی ایم ایف کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ قرضہ جو لیتے ہیں‘‘۔ تو قرضہ کیوں لیتے ہو؟ لوٹ مار تم کرتے ہو، ملک کی تباہی اور بربادی کے راستے تم نے اختیار کیے ہیں۔ اور قرضے لے کر پھر اُن کی ہدایات پر عمل کرتے ہو۔ یہ تو سامراجی طریقۂ کار ہے کہ قوموں کو پہلے قرضوں کے جال میں جکڑو، اور پھر اپنے قوانین مسلط کرواؤ، اور پھر جواز بتانے کے لیے یہ کہا جائے کہ ’’چوں کہ ایک بالادست فورم یہ کہہ رہا ہے‘‘۔ آپ کو زیادہ سے زیادہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ ہمارے مفاد کا قانون نہیں ہے۔ یہ ہمارے بازو مروڑ کر، پیچھے ہاتھ باندھ کر، دو چانٹیں مار کر ہم سے یہ قانون منظور کرایا گیا ہے۔ تو اس کو ظلم تو کہو۔ جبر تو کہو۔
دوسروں کی رائے اور دباؤ میں بنایا گیا قانون قومی قانون کیسے ہوگا؟ اس کا قومی نظام سے کیا تعلق؟ قومی ریاست سے کیا تعلق؟ اس کا ریاستِ مدینہ سے کیا تعلق ہے؟ کیا ریاستِ مدینہ‘ مکہ والوں سے قرضہ لے کر چل رہی تھی؟ جیسے افغانستان کے بارے میں کہتے ہیںکہ ہم نے فتح مکہ کی طرح فتح حاصل کرلی، جب کہ بھیک اُس سے مانگ رہے ہیں جو مفتوح ہے۔ اسلام کا قلعہ بنایا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کہتے ہیںکہ ہمیں اسلام نافذ کرنے کے لیے پیسے تم دو۔ جو عالمِ کفر ہے، جس نے خلافتِ اسلامیہ کا بارہ سو سالہ نظام توڑا۔ اُس سے کہتے ہیں کہ تمھارے دیے ہوئے قرضے سے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلامی امارتِ افغانستان چلانا چاہتے ہیں، تو اس سے بڑا دھوکا کوئی اَور ہوسکتا ہے؟ ایسی حکومت ریاستِ مدینہ کی حیثیت نہیں رکھتی‘‘۔
مسلمان قوم‘ قومی اُمنگوں کی پاسداری کرے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:’ ’‘طاعۃ و قول معروف ‘‘ (-47 محمد: 21) یعنی اگر تمھیں کامیابی حاصل کرنی ہے تو ’’طاعۃ‘‘: اللہ کے قانون کی اطاعت کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ اور ’’قول معروف‘‘: اس قانون کے مطابق ٹھیک اور صحیح بات کرنی ہوگی۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ طاعت اس کو کہتے ہیں کہ ہر وہ آدمی جو کسی نظریے پر ایمان رکھتا ہے، اس کے مطابق بنی ہوئی اپنی جماعت، قوم اور ریاست کے منظور کیے ہوئے قاعدوں، ضابطوں اور بنائے ہوئےSOP'sاور طریقۂ کار کی پابندی کرے۔ اس لیے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ہر مسلمان مؤمن پر سمع و طاعت لازمی ہے کہ جو قانون منظور ہوا، اس کے نفاذ کے لیے حکومت نے جو حکم نامہ جاری کیا، اس کو توجہ سے سنے اور اس کی ڈسپلن کے ساتھ اطاعت کرے۔ چاہے اُس کو ذاتی، گروہی یا انفرادی طور پر یا اپنے علاقائی طور پر وہ چیز پسند ہو یا نہ پسند ہو۔
قومیں بنتی ہی ڈسپلن سے ہیں کہ جو قانون اور ضابطہ جاری ہوگیا، اس کی پابندی کی جائے۔ شرط یہ ہے کہ وہ قانون اور ضابطہ قومی اُمنگوں کا آئینہ دار، ملّی تقاضوںکا نمائندہ اور اُس اجتماعی نظام کے تحت ہو، جس کی سوچ اور فکر غالب ہو۔ آج امریکا سرمایہ داری نظام پر ایمان رکھتا ہے، تو اس کا سیاسی، معاشی اور سماجی نظام سرمائے کے گرد ہی گھومتا ہے۔ چین اور رُوس سوشلزم اور کیمونزم پر ایمان رکھتے ہیں تو اُن کی سیاسی اتھارٹی، معاشی اور معاشرتی نظام اسی کے مطابق ہے۔ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ کہاںکھڑے ہیں؟ کیا آپ کا ایمان سرمائے کی بالادستی پر ہے؟ کیا آپ کیمونسٹ ہیں؟ یا آپ کا ایمان دینِ اسلام کے مطابق ہے؟ آپ مسلمان ہیں تو آپ فرض ہے کہ آپ دین کی تعلیمات کے مطابق اپنا نظام تشکیل دیں۔
متحدہ ہندوستان میں آپ پر یہ اجتماعی فرائض نہیں تھے کہ آپ اپنا انتظامی ڈھانچہ اسلام کے اُصولوں پر بنائیں۔ آپ سیاسی نظام اسلام کا بنائیں۔ آپ پر لازمی اور فرض نہیں ہوا تھا کہ آپ اپنی پارلیمنٹ، اپنی بیوروکریسی، اپنی عدالت کو اسلامی اُصولوں پر بنائیں۔ وہ انگریزوں کا چل رہا تھا، چلتا رہتا۔ آپ نے کہا کہ ہم نے ریاست بنانی ہے۔ ہم نے اسلام کی حکومت قائم کرنی ہے۔ مسلمانوں کا ایک اجتماعی نظام بنانا ہے۔ اور جب پاکستان بنا اور ننانوے فی صد مسلمان یہاں جمع ہوگئے تو اب دینی اُصولوں پر ریاست چلانا آپ پر فرض ہوگیا۔ وہ ریاست جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات اور دین کی تعلیمات کی اَساس پر کردار ادا کرے۔ اب وہ احکامات نافذ العمل ہوں گے، جو نبی اکرمؐ نے بیان فرمائے۔ آپ نے اسلام کے نام پر ریاست بنائی ہے تو یہاں آزادیٔ رائے بھی اسلام کی تعلیمات کے مطابق بائیس کروڑ لوگوں کو دینی ہوگی، بامعنیٰ مشاورت بھی کرنی ہوگی، اس مشاورت کی اساس پر قانون اور آئین بھی بنانا ہوگا۔ اور پھر اس کا نفاذ بھی کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو محض نیک خواہشات سے کبھی کامیابی اور ترقی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
جنگی بلاکوں کی ذہنیت‘ کلونیل عہد کا تسلسل ہے
ہمارے گرد و پیش کی دنیا‘ نِت نئے حادثات و واقعات کی زد میں رہتی ہے۔ ہم مسلسل قومی اور بین الاقوامی سطح پر تازہ بہ تازہ صورتِ حال کو ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کی دُنیا …
پاکستان میں غلبۂ دین کے عصری تقاضے
ہم نے گزشتہ مہینے انھیں صفحات پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جدوجہد کے تناظر میں دو اہم سوالوں کے جوابات کے ضمن میں دو انتہاؤں کا جائزہ لیاتھا کہ وہ کیوں کر غلط ہیں۔ آج…
پاکستان کی داغ داغ سیاست
77 سال قبل جب پاکستان کی ریاست وجود میں آئی تو تقسیم کی لکیر کے اس پار سے جوق در جوق لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے یہاں پہنچے، لیکن گزشتہ ستتر سالہ حوادث و واقعات نے …
معاشی پھیلاؤ کا بجٹ
آمدہ سال حکومت 131 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق قریباً 79 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے۔ باقی رقم اندرونی اور بیرونی قرض…