حضرت مولانا نورمحمد لدھیانویؒ کا شمار برعظیم پاک و ہند کی ان شخصیات میں ہوتا ہے، جنھوں نے دینِ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے میں اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ مولانا نورمحمد لدھیانویؒ کی پیدائش ۱۲۷۲ھ / 1856ء میں موضع مانگٹ، لدھیانہ میں مولانا علی محمدؒ کے ہاں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لدھیانہ میں حاصل کی۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے دہلی، لکھنؤ، کان پور اور سہارن پورکے اسفار کیے۔ حدیث کی تعلیم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور میں رہ کر شاگردِ رشید حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ مولانا احمد علی محدث سہارن پوریؒ اور 1857ء کے مجاہد ِآزادی مولانا محمدمظہر ناناتویؒ سے حاصل کی۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد لدھیانہ واپس تشریف لائے اور اپنے والد ِگرامی کے قائم کیے ہوئے طالبات کے مدرسے کا انتظام سنبھالا۔ اس کا نام ’مدرسہ حقانیہ‘ رکھا۔ انھوں نے اس دور میں انگریز سامراج کی جانب سے پھیلائی گئی اِرتدادی سرگرمیوں کا بھی بھرپور جواب دیا۔ اس مقصد کے لیے ایک کتب خانہ اور’ مطبع حقانیہ‘ کے نام سے ایک پرنٹنگ پریس بھی قائم کیا۔ اسی مطبع سے اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ایک مجلہ بھی جاری کیا، جس کا نام قرآن حکیم کی سورت نور کی آیت سے ماخوذ ’’نور علیٰ نور‘‘ رکھا۔ حق اور سچ کی تعلیم ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی۔ نماز اور عقائد پر ایک منظوم کتاب بھی تحریر کی۔ شاعری میں تخلص’ حقانی‘ استعمال کرتے تھے۔
حضرت اخوند شیخ عبدالغفور سواتیؒ کے جانشین حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ کے حلقۂ اِرادت میں شامل ہوئے۔ حضرت سہارن پوریؒ نے انھیں اپنے مدرسے ’تعلیم القرآن‘ کا ناظم مقرر فرمایا۔ حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ اور مولانا نورمحمد لدھیانویؒ دونوں پیربھائی تھے۔ حضرت شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ سے ان دونوں حضرات کو اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔ 1885ء میں اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالرحیم سہارن پوریؒ کے وصال کے بعد کچھ عرصے کے لیے لدھیانہ تشریف لائے تو پھر دوبارہ ’مدرسہ حقانیہ‘ کی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ 1910ء میں حضرت عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کے ہمراہ حج پر تشریف لے گئے۔ حج سے واپسی کے بعد ان کا مستقل قیام رائے پور ہی میں رہا۔ حضرت عالیؒ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ باقی تمام زندگی انھیں کے حکم کے تابع خانقاہِ رائے پور میں گزار دی۔
حضرت اقدس عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوری قدس سرہٗ نے اکابرین مشائخ کے طرز پر صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن حکیم کی تعلیم وتعلّم کے لیے ہندوستان بھر میں مدارس و مکاتیب کا ایک پورا نظام قائم کیا ہوا تھا۔ حضرت مولانا نورمحمد لدھیانویؒ اس کے ذمہ دار اور نگران بنائے گئے تھے۔ حضرت عالی رائے پوریؒ نے ان سے بچوں کی عام فہم تعلیم کے لیے ابتدائی عربی قاعدہ لکھوایا، جس کا نام حضرت عالی رائے پوریؒ نے ’’نورانی قاعدہ‘‘ رکھا۔ اسے تمام مکاتیبِ قرآنیہ میں بہ طورِ نصاب جاری فرمایا۔ حضرت عالی رائے پوریؒ کے فیضانِ نظر سے یہ ’’نورانی قاعدہ‘‘ اتنا مشہور و معروف ہوا کہ آج برصغیر کا کوئی ابتدائی مکتب اور مدرسہ ایسا نہیں، جس میں تعلیم کا آغاز اس نورانی قاعدے سے نہ ہوتا ہو۔ ہر جگہ ابتدائی نصاب میں یہ قاعدہ ضرور شامل ہے۔ طلبا کو نورانی قاعدہ پڑھانے میں مدد و سہولت کے لیے خودمولانا نورمحمد لدھیانویؒ نے ایک کتاب تحریر کی تھی، جس کا نام ’نورانی قاعدہ مع طریقۂ تعلیم‘ رکھا۔ رائے پور میں اساتذہ کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً جو تربیتی اجلاس منعقد ہوتے تھے، ان میں اساتذہ کو نہایت کار آمد اور بہترین ہدایات دی جاتی تھیں، تاکہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے کوئی نقص نہ رہ جائے۔ ان تمام تعلیمی ہدایات اور تربیتی اصولوں کو مولانا نورمحمد لدھیانویؒ نے ایک جگہ جمع کردیا تھا، جو بعد میں ’’تعلیمُ المعلِّمین‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں طبع ہوئی۔
حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ نے مدارس و مکاتیبِ قرآنیہ کا جو سلسلہ قائم فرمایا تھا، ان کو صحیح نہج اور درست طریقۂ کار کے مطابق چلانے کے لیے رائے پور میں ایک مرکزی نظام بھی وضع کیا تھا۔ اس مرکزی نظام کی سرپرستی اور براہِ راست نگرانی حضرت اقدس عالی رائے پوریؒ خود فرماتے تھے۔ ان مدارس کے معلّمین کی تربیت کا نظم جب وسیع ہوگیا تو اس کی انتظامی ذمہ داری بھی مولانا نورمحمدلدھیانویؒ کے سپرد کردی۔
ان مدارس و مکاتیب کے اساتذہ کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً تربیتی سیمینارز منعقد ہوا کرتے تھے، جن میں اساتذہ کو طریقۂ تعلیم کے جدید اسلوب سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ بچوں کی نفسیات اور ان کی تربیتی ذمہ داریوں سے واقفیت بہم پہنچائی جاتی تھی۔ ابتدائی کلاسوں کے بچوں کو پڑھانے کا طریقہ عملی طور پر سکھلایا جاتا تھا۔ معلّمین کو ریاضی کی اہمیت بتلائی جاتی تھی اور اس کے پڑھانے کا عام فہم طریقۂ کار سمجھایا جاتا تھا۔ جب مدارس کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوگیا، اس کے نظام کو مربوط کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی تو تعلیم و تربیت کے انتظامی امور اور امتحانات کے معاملات کے لیے حضرت مولانا نور محمد لدھیانویؒ کو ناظمِ امتحانات مقرر فرما دیا تھا۔ چناںچہ وہ امتحانات کی نگرانی فرمایا کرتے اور اس سلسلے میں پورا شیڈول مرتب کیا جاتا۔ امتحانات لینے والے حضرات کو اطلاعات دی جاتیں۔ متعلقہ مدارس کو خطوط لکھے جاتے۔ اس طرح ایک مربوط نظامِ امتحانات ترتیب دے دیا گیا تھا۔
مولانا حقانیؒ نے رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ /اپریل 1920ء میں لدھیانہ میں مدرسہ’اُمّ المدارس‘ قائم فرمایا اور تدریسی امور سرانجام دیتے رہے۔ مولاناؒ تعلیمی سرگرمیوں اور اس کے تربیتی امور کے ماہر تھے، جس کی جھلک ان کی عملی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف مثلاً ’’نورانی قاعدہ‘‘، ’’طریقۂ تعلیم مع نورانی قاعدہ‘‘، ’’تعلیم المعلمین‘‘، ’’حسد اور اس کا علاج‘‘، ’’علم کی فضیلت‘‘ وغیرہ میں بھی ملتی ہے۔
مولانا نور محمد لدھیانویؒ کا وصال ۱۳۴۳ ھ / 1925ء میں ہوا۔ ان کا مزار فیل گنج قبرستان لدھیانہ میںمرجع خلائق ہے۔
Tags
Wasim Ejaz
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔