

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا۔ ایک بار ایک بکری ذبح کی۔ گھر والوں سے پوچھا کہ تم نے ہمارے یہودی ہمسایہ کے پاس گوشت ہدیہ بھیجا یا نہیں؟ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ: ’’مجھ کو جبرئیل نے ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی اس شدت سے وصیت کی کہ میں نے سمجھا کہ اس کو شریکِ وراثت بنادیں گے‘‘۔ (سنن ابوداؤد)
حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں کہ: جب ہم لوگ حضوؐر سے ہر بات سننے اور ماننے پر بیعت کرتے تھے تو آپؐ یہ فرمادیا کرتے کہ: ’’یوں کہو کہ جو بات میرے بس میں ہوگی‘‘ یعنی باہم وسعت کا معاملہ رکھنا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضرت ابنِ عمرؓ کے ساتھ تھا۔ جب میں سواری پر سوار ہونے لگتا تو وہ میرے پاس آکر میری رِکاب پکڑ لیتے، اور جب میں سوار ہوجاتا تو وہ میرے کپڑے ٹھیک کر دیتے۔ چناںچہ ایک مرتبہ وہ میرے پاس (اسی کام کے لیے) آئے تو میں نے کچھ ناگواری کا اظہار کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’اے مجاہد! تم بڑے تنگ اَخلاق ہو‘‘۔
حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں کہ: میں جنگِ یمامہ کے دن عبد اللہ بن مخرمہؓ کے پاس آیا۔ وہ زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ میں اُن کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تو انھوں نے کہا: ’’اے عبد اللہ بن عمر! کیا روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں! انھوں نے کہا: ’’لکڑی کی اس ڈھال میں پانی لے آئو، تاکہ میں اس سے روزہ کھول لوں۔ ابنِ عمر فرماتے ہیں کہ میں (پانی لینے) حوض پر گیا۔ حوض پانی سے بھرا ہوا تھا۔ میرے پاس چمڑے کی ایک ڈھال تھی۔ میں نے اسے نکالا اور اس کے ذریعے حوض میں سے پانی لے کر (ابنِ مخرمہ کی) لکڑی والی ڈھال میں ڈالا۔ پھر وہ پانی لے کر میں حضرت ابنِ مخرمہؓ کے پاس آیا۔ آکر دیکھا تو اُن کا انتقال ہوچکا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: حضوؐر نے لڑنے کے لیے ایک جماعت بھیجی، میں بھی اس میں تھا۔ کچھ لوگ میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹے۔ میں بھی اُن ہٹنے والوں میں تھا۔ (واپسی پر) ہم نے کہا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم تو دشمن کے مقابلے سے بھاگے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر واپس لوٹ رہے ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ ہم لوگ مدینہ جاکر رات گزار لیں گے (پھر اس کے بعد حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوں گے)۔ پھر ہم نے کہا: (نہیں!) ہم سیدھے جا کر حضوؐر کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کر دیں گے۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو ٹھیک ہے ورنہ ہم (مدینہ چھوڑ کر کہیں اَور) چلے جائیں گے۔ ہم فجر کی نماز سے پہلے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (ہماری خبر ملنے پر) آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’یہ لوگ کون ہیں؟‘‘ ہم نے کہا کہ: ہم تو میدانِ جنگ کے بھگوڑے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں! بلکہ تم تو پیچھے ہٹ کر دوبارہ حملہ کرنے والوں میں سے ہو‘‘۔ میں تمھارا اور مسلمانوں کا مرکز ہوں (یعنی تم میرے پاس آگئے ہو، اس لیے تم بھگوڑے نہیں ہو)۔ پھر ہم نے آگے بڑھ کر حضوؐر کے دستِ مبارک کو چوما۔

Maulana Qazi Muhammad Yousuf
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
Hazrat Hakeem ibn Hizam al-Qurashi al-Asadi
Hazrat Hakeem ibn Hizam al-Qurashi al-Asadi, also known as Abu Khalid Maki, was deeply devoted to the Prophet Muhammad (peace be upon him). He embraced Islam during the…
حضرت عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ قریشی عبدری الحجبی رضی اللہ عنہٗ
حضرت عثمان بن طلحہ قریشی رضی اللہ عنہٗ بہت سی انسانی خوبیوں اور بہترین اَخلاق اور انسانیت کے مظہر لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔آپؓ بیت اللہ الحرام کے حاجب یعنی کلید برداری کے …
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
سیّدنا عبدالملک بن مروانؒ
پچھلے دنوں ایک دعائیہ تقریب میں ایک ’’عالمی مبلغ‘‘ نے جھوٹی اور موضوع روایات کا سہارا لے کر خلفائے بنواُمیہ کی کردار کشی کی اور ایسے جھوٹے واقعات …