رمضان المبارک کیسے گزاریں؟

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Feb 28, 2025 - Khutbat e Juma
رمضان المبارک کیسے گزاریں؟

رمضان المبارک کیسے گزاریں؟

۲۶؍ شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ/ 8؍ مارچ 2024ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہورمیں خطبہ جمعتہ المبارک دیتے ہوئے فرمایا:

’’معزز دوستو ! رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہ ماہِ مبارک ہم مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ نے انسانیت کو دنیا اور آخرت میں کامیاب بنانے کے لیے جن اُمور کا پابند بنایا ہے، اُن میں ایک‘ اس خاص ماہِ رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے۔ اس پورے مہینے میں ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوکر، اس کے حکم کے مطابق دن میں روزے رکھیں اور رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر قرآن حکیم کی تلاوت میں مشغول رہیں۔ یہ ہماری تربیت و تزکیے اور ہمیں مہذب بنانے کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں نہ صرف ہماری روح کو پاکیزہ بنانے کا عمل کیا جاتا ہے، بلکہ اس رمضان المبارک کے بابرکت ایام اور بابرکت راتوں کے ذریعے سے ہمارے اجتماع اور سوسائٹی کی تہذیب و تشکیل بھی کی جاتی ہے۔ انسان چوں کہ ایک اجتماع میں رہتا ہے، جب تک کوئی اجتماع درست نہ ہو، مسلمان درست نہیں ہوتے۔ مسلمان جہاں تک اس کی اپنی ذات کا معاملہ ہے، وہاں بھی اُسے مہذب بننا ہے، جہاں تک اُس کے خاندان کا معاملہ ہے، خاندانی اجتماعیت میں بھی ایک تہذیب یافتہ فیملی سسٹم میں رہنا ہے۔ کسی شہر کا یا ملک کا قومی سطح کا کوئی نظام وجود میں آنا ہے تو وہ بھی اُس قوم کے تمام افراد کی تہذیب سے عبارت ہے کہ وہ مہذب بنیں۔ اور اسی طرح وہ مسلمان جو بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک اور علاقوں اور اقوام میں رہتے ہیں تو انسانیت کا بین الاقوامی نظام بھی مہذب ہو۔ گویا تہذیبِ انسانیت میں رمضان المبارک کا بڑا بنیادی کردار ہے۔

تہذیب اس لیے ضرور ہے کہ انسان میں اگر تہذیب نہ ہو تو وہ درندہ بن جاتا ہے۔ غیرمہذب انسان‘ حیوانیت کی سطح پر اُتر آتا ہے۔ انسانیت کا مقام نہیں پاتا، اُس سے اُنس و محبت ختم ہوجاتی ہے۔ جانوروں کی طرح سفاکیت اور ظلم، بے انصافی اور انسان دشمنی اُس میں پائی جاتی ہے۔ جب کہ ایک انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں اُنس ہو۔ ایک دوسرے سے محبت اور یگانگت ہو۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا جذبہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے خالق و مالک ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے، اُس کے انعامات کا شکر ادا کرنے اور اُس کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے ساتھ عدل و انصاف کا تعلق قائم کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ انسانیت نام ہی اس ذہنی شعور، قلبی جذبے اور نفسی تقاضے کا ہے۔ غیرمہذب انسان‘ انسانی معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشرہ غیرمہذب ہوتا ہے کہ جس میں باقی انسانوں کے لیے عدل، امن اور معاشی خوش حالی نہ ہو۔ اُن کی سیاسی، معاشی اور سماجی ضروریات پوری نہ ہوں۔ انسان دوستی کا جذبہ نہ ہو‘‘۔

رمضان المبارک اور معاشرتی تقاضے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’انسانیت میں حیوانیت تب پیدا ہوتی ہے، جب وہ ایک لمبی مدت تک صرف کھانے پینے اور شہوتیں پورا کرنے میں مگن رہے۔ اُس پر کوئی روک ٹوک نہ ہو اور وہ کسی ڈسپلن کا پابند نہ ہو۔ انسانیت کو ڈسپلن سکھانے کے لیے سال بھر میں ایک ماہ کے روزے رکھے گئے ہیں، جب کہ باقی مختلف اوقات میں نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں، لیکن کم از کم ایک انسان سال بھر میں ایک ماہ اس حوالے سے مخصوص کرلے کہ اُس نے اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنا ہے۔ اپنے کھانے پینے کو ایک ڈسپلن میں لانا ہے۔ دوسرے انسانوں کی بھوک محسوس کرنی ہے۔ دوسرے انسانوں کے کام آنا ہے۔ اُن کے ساتھ مواسات اور خیرخواہی کرنی ہے۔ اور اُسے اپنی جنسی خواہشات کو کنٹرول کرنا ہے، تاکہ وہ صرف جانور بن کر ہی نہ رہ جائے، بلکہ وہ مہذب سوسائٹی کا ایک فرد بنے۔

تہذیب کے لیے سب سے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ کوئی نظریہ اور فکر موجود ہو، جس پر فرد، گھر، قبیلے، قوم، ملک اور بین الاقوامی معاشرے کی شیرازہ بندی کی جائے۔ کسی نظریے کا انسان خود پابند ہو۔ اپنے ہی طے کیے ہوئے ضابطے اور قوانین اور اجتماع سے متعلق اُمور کا اپنے آپ کو پابند بنائے۔ یہ تہذیب ہے۔ ایک خاندان، ایک نظم و ضبط کے تحت وجود میں آئے، اُسی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اُسی کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے۔ ماں باپ اولاد کے، اور اولاد ماں باپ کے، عزیز و اقارِب اور رشتہ داروں کے۔ ایک محلے کے رہنے والے مہذب تبھی ہوں گے کہ جب وہ ایک ڈسپلن میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہوں گے۔ ہر آدمی اپنی مرضی سے کام نہیں کرے گا، ورنہ بغیر کسی ڈسپلن کے تو وہ محلہ، شہر، یا ملک بدصورت ہوگا۔

دوسرے یہ کہ انسان نے انسانیت دوستی اور انسانیت کی ترقی کا جو نظریہ متعین کیا ہے، اُس کو عمل میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا سسٹم قائم کیا جائے، ایسا آئین، قانون اور نظام عملاً وجود میں لایا جائے جو عدل اور انصاف کی بنیاد پر ہو۔ جب تک کسی اجتماع کے تمام فریق‘ حقوق حاصل کرنے کے حوالے سے مساوی اور عادلانہ نسبت نہیں رکھتے تو وہ غیرمہذب ہیں۔ اُن اقدار اور اُن ویلیوز پر جو کسی اجتماع نے اپنے لیے طے کیے ہوئے ہوں، ایک آئینی فریم ورک اور ایک قانون کے تحت ایک معاشرہ کام کرے۔ انسانیت کی اَساس پر ایک منصفانہ نظام ہو، جو تمام انسانوں میں بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب عادلانہ مساوات کے تحت کام کرے۔

تیسری بات یہ ہے کہ تمام انسانوں کے امن و امان، جان مال اور عزت آبرو کے تحفظ کے سیاسی حقوق کی ادائیگی کا نظام موجود ہو۔ چوتھی بات یہ کہ اُن کے معاشی حقوق اطمینان بخش ہوں۔ تہذیب کے بنیادی اَہداف یہ چار اُمور ہیں اور ان کے متصادم جتنے بھی اُمور ہیں، ان سے غیر مہذب معاشرہ، غیرمہذب فرد، غیرمہذب خاندان، غیرمہذب قوم اور غیرمہذب بین الاقوامیت پیدا ہوتی ہے‘‘۔

 

 

رمضان المبارک اور تقویٰ کی حقیقت

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم پر بھی بالکل اُسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے جتنے انبیاؑ اور ان کے اُمتیوں اور متبعین پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ (-2 البقرہ: 183) یعنی یہ انسانیت کے ضمیر کی یکساں آواز ہے کہ روزوں کے ذریعے انسانیت میں تہذیب پیدا کی جائے۔ اور یہ انسان پر اس لیے فرض کیے ہیں تاکہ اس میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کی حقیقت میں یہ بات داخل ہے کہ اپنے نظریات، اپنا آئین وقانون، اپنی سیاست، اپنی معیشت‘ ان چاروں دائروں کا جائزہ لیا جائے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے؟ نظریہ آزادی کا ہے یا غلامی کا؟ آئین اور قانون عادلانہ ہے یا ظالمانہ؟ کون سا سیاسی نظام صحیح ہے؟ امن والا یا خوف دینے والا ہے؟ کون سا معاشی نظام درست ہے؟ انسانیت کو اطمینان بخش وسائل فراہم کرنے والا یا اُسے بھوکا رکھنے والا؟ پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: تقویٰ یہ ہے کہ حق اور باطل میں، صحیح اور غلط میں، عدل اور ظلم میں، نیکی اور بدی میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ معاشرہ اس کے بغیر مہذب نہیں ہوتا۔

ایک مہذب معاشرے کے لیے نظریۂ آزادی ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ جس معاشرے میں نظریۂ غلامی رچ بس جائے، وہ کبھی مہذب نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ غیرمہذب رہتا ہے۔ غلام آدمی‘ غیرمہذب ہوتا ہے۔ ایسا غیرمہذب کہ جس کا نقشہ کھینچتے ہوئے قرآن پاک (-16 النحل: 75-76) نے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے کی کوئی قدرت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مولیٰ (آقا) پر بوجھ ہے۔ چاہے وہ مولیٰ کوئی انسان ہو، یا اپنا مولیٰ اللہ میاں کو بنائے، لیکن اُس کا کام نہ کرے، ہے غلام۔ وہ انسانیت پر بھی بوجھ ہے۔ وہ ایسا بدنصیب ہے کہ وہ جدھر بھی متوجہ ہوجائے، سیاست میں، معیشت میں، سماج میں، اپنے گھر کی تعمیر وتشکیل میں، اپنی ذات میں، خیر کی بات اُس سے نہیں نکلے گی۔ ہمیشہ شر ہی کی بات ہوگی۔ کیوں کہ وہ اپنے کام خود کرنہیں سکتا، وہ اپنے تمام کام اُس کے احکامات کے مطابق کرے گا، جس کا وہ عبد ِمملوک (ملکیتی غلام) اور کٹھ پتلی ہے۔ وہ جمہوریت کا ڈرامہ رچائے یا بادشاہت کا، وہ خلافت کا عنوان اختیار کرے یا اسلام کا، اگر ’’عبداً مملوکًا‘‘ (غلام) ہے تو اس کی کسی بات میں وزن نہیں ہوگا۔

اللہ نے فرمایا کہ: اس کے مقابلے میں دوسری طرف وہ انسان ہے، جو آزاد ہے، خود مختار ہے، اور عدل کی بنیاد پر اپنا آئین، اپنا قانون، اپنی سیاست اور معیشت بنائے ہوئے ہے، کیا یہ اور وہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کامن سینس کی بات ہے کہ نہیں! جو عدل پر اپنا معاشرہ اور اپنا نظام بنائے ہوئے ہے، وہ کبھی بھی اُس غلام کے برابر نہیں ہوسکتا جو جدھر بھی توجہ کرتا ہے، خیر سے محروم ہوجاتا ہے۔  یہ وہ بنیادی بات ہے جو ماہِ رمضان المبارک‘ تقویٰ کے نتیجے میں ایک مسلمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے‘‘۔

 

رمضان المبارک اور ملکی سلامتی کے تقاضے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری یہ مملکتِ خداداد پاکستان رمضان المبارک میں بنی تھی۔ اس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ اس لیے کہ رمضان میں بنا ہے۔ یہ آپ کا مقدمہ ہے، لیکن اگر خود پاکستانی بدنیتی پر مبنی کام کریں، اُسے پاک بنانے کے بجائے ناپاک کرنے کا ہر ممکن جتن کریں تو تمھاری بداَعمالی کی کوئی سزا نہیں ہے؟ جب کہ ایک تجربہ ہوچکا ہے کہ تم پاکستان کا آدھے سے زیادہ حصہ توڑ چکے ہو۔ رمضان میں بنا تھا تو پھر یہ 1970-71ء میں کیوں ٹوٹ گیا؟ وہاں برکت نہیں تھی رمضان کی؟ دو سو سال سے آپ کے مقدر میں غلامی ‘ عذاب کے طور پر اللہ نے تم پر مسلط کی ہوئی تھی، 1947ء میں اُس غلامی کا سودا ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف منتقل ہوگیا، بس! کیا فرق ہے؟ رمضان المبارک کے مہینے میں یہ شعور تو ہونا چاہیے تھا کہ یہ قبضہ ایک غلام کا، ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف جا رہا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پہلا مالک بھی اپنے تمام تر ملکیتی اثاثوں کے ساتھ دوسرے مالک کا یرغمال اور غلام بن گیا۔

کہنے کا مقصد یہ کہ رمضان المبارک جو شعور کا مہینہ تھا، جو حق و باطل میں تمیز کا مہینہ تھا، وہ حق و باطل کو گدلانے کا مہینہ بن گیا۔ متقی اور صحیح نیت والے لوگوں نے اس حقیقت کو واشگاف کیا تھا کہ یہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوا ہے، تم ایک کی غلامی میں نکل کر دوسرے کی غلامی میں جا رہے ہو، نام اسلام کا استعمال کیا جا رہا ہے اور تمھاری آزادی سلب کی جارہی ہے۔ آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹک رہے ہو۔ غلامی، بداَمنی اور نہ ختم ہونے والی ایک معاشی استحصالی زندگی کی طرف تم جا رہے ہو۔ وہ جاگیردار، وہ وڈیرے، وہ مراعات یافتہ طبقات جو انگریز کے مفادات کے ٹوڈی تھے، وہ تم پر مسلط ہو رہے ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ فرق یہ ہے کہ گورے کے بجائے کالے انگریز مسلط ہوگئے۔

گزشتہ چھہتر سالوں میں جو بھی تمھارے لیے حکمران بن کر آئے ہیں، اُن کے ساتھ کرپشن، لوٹ مار، قومی وسائل کو تباہ و برباد کرنے، ریاست کو نقصان پہنچانے، اقوام کو نقصان پہنچانے کا بھیانک کردار چپکا ہوا ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں کسی لیڈر پر کوئی اِلزام لگ جائے، چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو، وہ استعفیٰ دے دیتا ہے کہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں پارلیمنٹ میں بیٹھوں، لیکن ہمارے ہاں چھہتر سالوں سے جتنے مرضی الزام لگ جائیں، پھر بھی وہ حکومت سنبھالنے کے لیے آگے آگے ہوتے ہیں۔

رمضان آرہا ہے، شعور کی آنکھیں کھولیں، حقائق کے تناظر میں اپنا جائزہ لیں۔ کھلی آنکھوں سے رمضان کے روزے رکھیں۔ حق اور باطل کی پہچان پیدا کریں۔ رمضان کا مہینہ نشے کا مہینہ نہیں ہے کہ خوب کھاؤ پیو، سوتے رہو اور غفلت کی حالت میں رہو۔ نہیں! بلکہ آنکھیں کھول کر شعور کی اَساس پر قرآن کا پیغام سمجھو۔ رمضان کا پیغام سمجھو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ (آمین)

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri

Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur

Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences

Related Articles

روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش

عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…

Maulana Dr Muhammad Nasir Apr 10, 2022

رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنے کا نقصان

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ _ رضی اللّٰہ عنہٗ _ رَفَعَہٗ: ’’مَنْ أَفْطَرَ یَوْماً فِيْ رَمَضَانَ، مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضِہِ صِیَامُ الدَّھْرِ، وَإِنْ صَامَہٗ‘‘۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ ت…

Maulana Dr Muhammad Nasir Mar 13, 2024

رمضان المبارک انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے

۳؍ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ / 16؍ اپریل 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: &rs…

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri Apr 13, 2022

رمضان المبارک میں حضورﷺ کے دو خصوصی معمولات

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: ’’کَانَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ یَلْقَاہُ فِي کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُەُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِﷺ أَ…

Maulana Dr Muhammad Nasir May 11, 2021