صحابہؓ کا ایمان افروز کردار
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ غزوۂ خیبر کے سال (۷ھ / 628ء) مسلمان ہوئے۔ آپؓ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں۔ آپؓ عقل مند فضلا اور فقہا صحابہ کرامؓ میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کو فقہ و دین کی تعلیم کے لیے بصرہ روانہ فرمایا۔ آپؓ نے پوری زندگی وہیں بسر کردی۔
حضرت عمران بن حصینؓ باغ و بہار مزاج کے مالک تھے، مگر شریعت اور دائرۂ حق کا ہمیشہ دھیان رکھتے تھے۔ ۵۲ھ / 672ء میں آپؓ کی وفات ہوئی۔آپ اپنے شاگردوں کا امتحان‘ سوالات کے ذریعہ لیتے تھے۔
آپؓ سے حضرت حسن بصریؒ، امام محمد بن سیرینؒ، علامہ شعبیؒ ایسے اکابر تابعین نے روایت کی ہے۔ معروف محدث و مؤرخ حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ: ’’احادیث کی کتب میں حضرت عمران بن حصینؓ کی روایاتِ حدیث موجود ہیں‘‘۔ آپؓ کی ایک روایت کو امام حاکمؒ نے اپنی ’’مستدرک علی الصّحیحین‘‘ میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ! اپنی قربانی کی خدمت کرو اور اسے ذبح ہوتے ہوئے دیکھو۔ تیرا ہر گناہ قربانی کے پہلے قطرے کے زمین پر گرتے ہی بخش دیا جاتاہے اور ذبح کے وقت یہ پڑھو: ’’بے شک میری نماز، اور میری قربانی، اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں حکم برداروں میں سے ہوں‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے اور قربانی کے جانور کی دیکھ بھال اور خدمت کرنی چاہیے، جس طرح آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو نصیحت کی۔ اسی طرح قربانی کے جانور کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھنا بھی چاہیے، تاکہ انسان کی ذہنی، عقلی اور نفسیاتی وابستگی ذاتِ حق کے ساتھ مخلصانہ طور پر پیدا ہو۔ قربانی سے نفس کا علاج ہو۔ انفرادیت کامرض دور ہو اور مال کی محبت کا علاج ہو۔قربانی کرتے وقت دینِ حق کے عظیم مقاصد اور ملتِ حنیفیت کے عملی مظاہر سے وابستگی اور مناسبت پیدا ہو۔ توحید ِالٰہی کے بلند نصب العین سے شعوری ربط پیدا ہو۔ ہر غیر حق کی غلامی سے آزادی کا عزمِ مصمم وجود میں آئے۔ انسان ہر قسم کے گناہوں کی آلودگی سے دل کو پاک کرکے مغفرت و بخشش کی گراں قدر گھٹاؤں میں روحانی تازگی اور شرحِ قلب کے ساتھ زندگی کے میدانوں میں قدم رکھ سکے۔
اس حدیث سے یہ رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی نسلِ نو کو ہر عمل سے شعوری وابستگی کا پیغام دیا۔ ذہنی وعقلی قوتیں اور عملی صلاحیتیں ایک ہی نظریے اور ایمان سے جڑی ہوئی ہوں تو نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
مولانا قاضی محمدیوسف، حسن ابدال
Maulana Qazi Muhammad Yousuf
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بنتِ حارث
اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا قبیلہ قریش سے تھیں۔ آپؓ کے والدین نے آپؓ کانام ’’برّہ‘‘ رکھا تھا۔ جب حضورؐ کے نکاح میں آئیں تو آپؐ نے ان کا نام …
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ ہجرتِ مدینہ سے 16 سال قبل پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دادا عمرو بن حرام انصاری اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے وقت آپؓ اپنے…
حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری قدس سرہٗ
حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری قدس سرہٗ نقوشِ زندگی کا ایک مختصر خاکہ تحریر: مفتی عبدالخالق آزاد ٭ آپؒ کی پیدائش رجب 1344ھ / جنوری 1926ء کو حضرتِ اقدس…
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ
بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘…