7؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’علم اس بات کی مہارت پیدا کرتا ہے کہ انسانی مسئلے کی نوعیت کو سمجھا جائے اور اُس کا ایسا حل تلاش کیا جائے، جس سے انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ قرآن حکیم میں ہے: ’’اللہ تمھارے لیے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے، تمھاری لیے مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (185:2) علم اور شعور کی بنیاد پر جو حکمرانی قائم ہوتی ہے، اس کا بنیادی تصور اور بیانیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کی مشکلات دور کرے، آسانیاں پیدا کرے۔ رسول اللہ ﷺ دس سال تک مدینہ منورہ کی ریاست کے حکمران رہے تو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ اُن کی مشکلات دور کیں۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ دونوں حضرات کو حضوؐر نے اپنی ریاستِ مدینہ کی حکمرانی کے زمانے میں شمالی اور جنوبی یمن دونوں کا حکمران اور گورنر بنا کر بھیجا تو ان سے فرمایا: ’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا۔ اُن کو خوش خبریاں سنانا۔ نفرت اور مشکلات مت کھڑی کرنا۔ تنگی میں مت مبتلا کرنا۔‘‘ (صحیح مسلم: 1733)
علم کا مقصد انسانی مشکلات کی گتھیوں کو سلجھانا ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں معاملہ اُلٹا ہے کہ ہم علم حاصل کرتے ہیں مشکلات کی گتھیوں کو مزید اُلجھانے کے لیے۔ ہمارا بیوروکریٹ علم حاصل کرکے حکومتی منصب پر پہنچتا ہے تو انسانوں کو سہولتیں دینے کے بجائے اُن کے لیے مشکلات کھڑی کرتا ہے۔ رشوت کے لیے فائل دبا کر بیٹھ جاتا ہے۔ مولوی صاحب علم حاصل کرتے ہیں اور وہ دین کو پیچیدہ اور مشکل بنادیتے ہیں۔ فرقہ واریت کے دبیز لبادے میں اتنا اُلجھا دیتے ہیں کہ اصل دین ہے کیا؟ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ وہ فرقوں کی بھول بھلیوں میں داخل کرکے مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ آسانیاں پیدا نہیں کرتے۔
یاد رکھیے! جہالت پر مبنی ناقص علم اور جاہلانہ تصورات ہمیشہ مشکلات ہی کھڑی کرتے ہیں۔ وہ کبھی مشکل حل کرنے کی اہلیت نہیں حاصل کر پاتے۔ تجربے کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ کتنے سیاسی تجربے کیے گئے۔ پارٹیاں بدلنے کے تجربے کتنے کیے گئے، سیاست اور معیشت کے حوالے سے کتنی پالیسیاں نافذ کرنے کے تجربے کیے گئے۔ ہر ایک تجربہ ایک نئی مشکل کی صورت میں پاکستانیوں کی گردنوں پر مسلط ہوا ہے۔ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھتے اُلجھتے آج کئی مشکلات کی صورت میں قومی اُلجھاؤ ہمارے سامنے ہیں۔ ان مشکلات سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ علم و شعور جو قوموں کی ترقی کے لیے لازمی ہے، اسے پورے طور پر حاصل کیا جائے اور اس کا سسٹم بنایا جائے۔ اس سسٹم کے راستے کی رکاوٹوں کو توڑا جائے۔ اسی کو امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’فَکُّ کُلِّ نِظَام‘‘ کہا ہے کہ فرسودہ، ظالمانہ اور مشکلات پیدا کرنے والے نظام کو جب تک توڑ کر ختم نہ کیا جائے تو نیا نظام استوار نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے صحیح علم و شعور کی شمع جلانا، اس کا نظام قائم کرنے کی فکر کرنا، اس کی جدوجہد اور کوشش کرنا، تعلق مع اللہ کا پہلا، بنیادی اور لازمی تقاضا ہے۔‘‘
Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences