عَنْ أَسْمَائَ، قَالَتْ: قَدِمَتْ أُمِّی وَ ھِی مُشْرِکَۃٌ فِیْ عَھْدِ قُرَیْشٍ و مُدَّتِھِمْ، إِذْ عَاھَدُوْا النَّبِیِّ ﷺ، مَعَ أَبِیْھَا، فَاسْتَفْتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّی قَدِمَتْ وَ ھِیَ رَاغِبَۃٌ، أفأصِلُھا؟ قَالَ: ’’نَعَمْ صِلِیْ أُمِّکِ‘‘۔ (صحیح بخاری: 5979)
حضرت اسما رضی اللہ عنہا (دختر حضرت ابوبکرصدیقؓ) فرماتی ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں۔ وہ نبی کریمﷺ کے قریش کے ساتھ صلح کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ (مدینہ منورہ) آئیں۔ میں نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا: میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے لاتعلق ہیں، کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ایک اہلیہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔ ان کے بطن سے آپؓ کی بیٹی حضرت اسماؓ تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں اور صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی مخالف فریق میں شامل تھیں۔ ایک بار میرے پاس مدینہ منورہ آئیں تو میں نے حضورﷺ سے پوچھاکہ میں اپنی والدہ کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ تو حضورؐ نے فرمایا: ’’اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘۔ اس حدیث سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں:
(1) دینِ اسلام خونی رشتوں کا لحاظ کرنے کا حکم دیتا ہے، یہاں تک کہ ماں باپ اگر کافر بھی ہوں، تب بھی ان کے دُنیوی حقوق ادا کرنے ضروری ہیں۔ یہی بات حضرت لقمان علیہ السلام اپنے صاحب زادے کو نصیحت کے پیرائے میں کہتے ہیں۔ (القرآن: لقمان: 13-15)
(2) اگر ماں باپ دینی نظریے اور دینی تصور سے اولاد کو منحرف کرنا چاہیں تو ان کی بات ماننے کا انسان پابند نہیں، جیسے حضرت اَسماؓ کی ماں صلح حدیبیہ میں مخالف فریق میں شامل تھیں اور حضرت اَسماؓ اس معاملے میں اپنی ماں کے ساتھ نہیں تھیں، لیکن نبی اکرمﷺ یا حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اَسماؓ کو نہیں کہا کہ اس امر میں اپنی ماں کی بات کی تعمیل کرو۔
(3) مذکورہ گفتگو سے یہ عیاں ہوا کہ دینِ اسلام کا معاشرتی تصور‘ حقوق کی فراہمی اور انسانی ہمدردی پر مبنی ہے۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے، جس سے دینِ اسلام کے عدل پسند اور انسانیت گیر نظریے کو قبولیت ملی۔ دینِ اسلام کی اسی خوبی نے قوموں کو اپنا نظریہ اور سوچ بدلنے پر مجبور کردیا۔ آج مسلمانوں کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کے ہاں انسانی رشتوں کا احترام کس قدر ہے؟ آج عقائد، علاقائی اور سماجی بنیاد پر مسلمانوں میں تقسیم روا رکھی جاتی ہے، حال آں کہ اسلام میں مذہب کی بنیاد پر منافرت کا کوئی تصور نہیں، بلکہ مخالفت کی بنیاد صرف عدل اور ظلم ہے، البتہ باطل عقیدے کے خلاف دعوت ہے۔ تفریق و تقسیم کے نظریے نے مزید پستی اختیار کی تو مسلکی بنیادوں پر مسجدیں تک الگ ہوگئیں۔ اس اختلاف پر خونی رشتوں کا احترام پامال کیا جاتا ہے اور خاندانوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ وہ بنیادی نقطۂ نظر جو کافر قوموں کے لیے دینِ اسلام کی طرف کشش کا باعث بنا، آج اسی نقطے پر مسلمانوں میں اختلافات ہیں اور رشتے پامال ہورہے ہیں۔ اس لیے یہ رویہ قابلِ غور ہے۔
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…