امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
(حجاب سوء المعرفہ دور کرنے کا طریقہ)
’’حجاب سوء المعرفہ (بدفہمی کے حجاب) کی دونوں قسمیں؛ (۱) شِرک (اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا) اور (۲) تشبیہ (اللہ تعالیٰ کو کسی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا) درجِ ذیل دو اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں:
(حجابِ سوئِ معرفت کا پہلا سبب اور اس کا علاج)
(1) ایک سبب یہ ہے کہ ایک انسان اپنے ربّ کو پہچاننے کی پوری معرفت حاصل کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانی صفات سے بہت ہی زیادہ بلند تر ہے۔ وہ مخلوقات اور محسوسات کی علامات سے بہت ہی زیادہ پاک ہے۔
ایسے لوگوں کا علاج یہ ہے کہ انھیں ان کے ذہنوں کے مطابق ہی مخاطب کیا جائے۔
(چیزوں کے سمجھنے کا ضابطہ)
اس سلسلے میں اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہر چیز __ خواہ موجود ہو یا معدوم، وہ کسی مادی مقام پر ہو یا مادی دائرے سے باہر ہو __ انسان کے علم سے ضرور متعلق ہوتی ہے:
(الف) یا اس چیز کی اصل صورت اس کے ذہن میں آتی ہے۔
(ب) یا اس چیز کی صورت کے ساتھ مشابہ رکھنے والی کوئی چیز ذہن میں ہوتی ہے۔
(ج) یا اس کو کسی دوسری چیز سے قیاس کرکے سمجھا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ انسان معدومِ مطلق (بالکل وجود نہ رکھنے والی چیز) اور مجہولِ مطلق (بالکل معلوم نہ ہونے والی چیز) کا بھی تصور رکھتا ہے۔ چناںچہ وہ ’’عدم‘‘ کو بھی کسی ’’موجود‘‘ کی معرفت کے حوالے سے ہی جانتا ہے۔ اس موقع پر وہ ملاحظہ کرتا ہے کہ معدوم چیز میں موجودچیز کے اوصاف نہیں پائے جا رہے۔ اسی طرح کسی ’’مشتق‘‘ لفظ کے مفہوم کو مفعول کے صیغے کے ساتھ سمجھا جاتا ہے، اور مطلق چیز کے مفہوم کو بھی جانا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی ان اشیا کی تمام معلومات کو جمع کرتا ہے اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ملاتا ہے۔ اس طرح اُس کے ذہن میں ایک ہیئت ِترکیبیہ پر مشتمل ایک شکل و صورت منظم ہوجاتی ہے۔
اس طرح یہ منظم صورت، اُس پیشِ نظر بسیط __ یعنی غیرمرکب مفرد چیز __ کے تصور کے لیے ایک آئینہ اور اس کی معرفت کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے، جو خارج میں کوئی وجود نہیں رکھتی اور نہ ذہنوں میں اس کا کوئی وجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ بسا اوقات انسان کسی چیز کے نظری مفہوم کو سمجھنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ پہلے اپنے خیال کے ذریعے سے اس کی ’’جنس‘‘ (مشترکہ خصوصیات) معلوم کرتا ہے اور اپنے خیال سے ہی اُس کی ’’فصل‘‘ (مشترکہ چیزوں سے الگ کرنے والی خصوصیت) کو سمجھتا ہے۔ اس طرح جنس اور فصل سے ملا کر (اس چیز کی تعریف کے طور پر) ایک مرکب صورت اُس کے ذہن میں حاصل ہوتی ہے، جو اس کے مطلوبہ تصور کو پہچاننے کے لیے آئینہ اور ذریعہ معرفت بن جاتی ہے۔
(اللہ کی معرفت حاصل کرنے کا طریقہ)
پس اللہ کی معرفت سمجھانے کے لیے ایسے لوگوں کو یوں مخاطب کیا جائے گا کہ:
(الف) ’’اللہ تعالیٰ موجود ہے، نہ اس طرح کہ جیسے ہمارا وجود ہے‘‘۔
(ب) اور یہ کہ: ’’اللہ تعالیٰ زندہ ہے، نہ اس طرح کہ جیسا کہ ہماری زندگی ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں اللہ کی ایسی صفات بیان کی جائیں جودیکھنے والے کی نظر میں انتہائی قابل تعریف ہوں۔ اس سلسلے میں ہم جن قابل تعریف چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان میں درجِ ذیل تین مفاہیم کا ضرور لحاظ رکھا جائے:
(1) ایسی شئے کو پیش نظر رکھنا جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں اور اس میں ان صفات کے اثرات و نتائج بھی ظاہر ہوتے ہوں۔
(2) دوسری وہ شئے کہ جس میں ان صفات میں سے کوئی صفت پائی نہیں جاتی اور نہ ہی کبھی اس میں ان صفات کا پایا جانا ممکن ہو۔
(3) تیسری وہ چیزیں جن میں ان صفات میں سے عملاً کوئی صفت نہیں پائی جا رہی، لیکن ان میں یہ صفات حاصل کرنے کی استعداد موجود ہو۔
مثلاً: (1) زندہ جسم (جس میں زندگی کی صفات اور اثرات پائے جاتے ہیں)۔
(2) جامد جسم (نہ زندگی کی صفات و آثار ہیں اور نہ ہی پائے جانے کا امکان ہے)۔
(3) مردہ جسم (جس میں زندگی کی صفت اور آثار نہیں ہیں، لیکن اس میں زندگی حاصل کرنے کی استعداد تھی)۔
پس اس طرح وہ شئے جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں، اس کے ذریعے سے اللہ کے زندہ ہونے کی معرفت حاصل کی جائے گی۔ اس طرح کرنے سے دیگر زندوں کے ساتھ اللہ کی مشابہت پیدا ہونے کی وجہ سے جو خرابی آئے گی، اُسے ’’لیس کمثلنا‘‘ (وہ ذات ہماری طرح نہیں ہے) کے جملے سے دور کیا جائے گا۔
(حجابِ سوئِ معرفت کا دوسرا سبب اور اس کا علاج)
(2) (حجابِ سوئِ معرفت کا پیدا ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ) تمام محسوس صورتیں اپنی زیب و زینت اور خوب صورتی کے ساتھ انسان کے ذہن پر مسلط ہوں اور وہ اُن چیزوں کی لذتوں میں مبتلا ہو۔ اس کی قوتِ علمیہ ایسی محسوس اور خوب صورت صورتوں سے ہر وقت بھری رہے اور اس کا دل ان لذتوں اور زیب و زینت کے تابع فرمان رہے۔ وہ خالص حق تبارک و تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے سے قاصر ہو۔
اس کا علاج یہ ہے کہ ایسی ریاضتیں اور اعمال کیے جائیں کہ جن کے ذریعے سے انسان میں اونچے درجے کی تجلیات حاصل کرنے کی استعداد پیدا ہوجائے، اگرچہ آخرت میں ہی حاصل ہو اور اللہ کے لیے اعتکافات کیے جائیں اور ممکن حد تک اللہ سے غافل کرنے والی چیزوں سے دور بھاگا جائے، جیسا کہ نبی اکرمؐ نے نقش و نگار سے بنے ہوئے کپڑے کو اپنے سامنے سے اُتار دیا تھا (البخاری، حدیث 6109) اور ایسے لباس کو بھی آپؐ نے اُتار دیا تھا، جس پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے (البخاری، حدیث: 373) ۔ و اللّٰہ أعلم! (باب طریق رفع ہٰذہ الحُجب)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار (6)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…