20؍ مارچ 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’معزز دوستو! یہ جمعتہ المبارک کا اجتماع ہے اور اجتماعیت قائم کرنے کا حکم دین اسلام کی تعلیمات کا بڑا بنیادی اور اساسی حکم ہے۔ انسانوں میں اجتماعیت کا قائم رہنا انسانیت کی بقا کا راز ہے۔ اس لیے نماز باجماعت کا حکم دیا گیا ہے۔ خاص طور پر جمعتہ المبارک کی اجتماعیت اور جمعہ کی نماز کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اجتماعیت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ دین کے اساسی امور میں سے ہے۔ اس کا قائم کرنا اُمتِ مسلمہ پر قیامت تک کے لیے فرض ہے۔
آج ہم جس فتنے میں مبتلا ہیں، اس کی حقیقت سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ کرونا وائرس کا فتنہ جو پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، اس کے حقائق پر غور و فکر کرنا، قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی حقیقت و ماہیت اور قرار واقعی حیثیت کا سمجھنا لازمی اور ضروری ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ قرآن حکیم کی آیات پر غور و فکر اور تدبر اور نبی اکرم ﷺ کی احادیث کی روشنی میں حقائق کا جائزہ لینا ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ اور ذمہ داری ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس حوالے سے مسلمان معاشروں میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم انتہا پسندی کے بہت سے مظاہر اور رویے ہمارے سامنے پائے جاتے ہیں۔ دین ایسی معتدل اور اُمتِ وسط بنانا چاہتا ہے، جو ہر پیش آمدہ معاملے میں متوازن، بہتر اور عمدہ رائے قائم کرتی اور اس پر عمل کرتی ہے۔ آج اسے ہم نے فراموش کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (25:8) (بچتے رہو اس فساد سے کہ نہیں پڑے گا تم میں سے خاص ظالموں پر ہی)۔ وہ فتنہ تم میں سے خاص ظالموں تک ہی محدود نہیں ہوگا، بلکہ تم تمام تک پہنچے گا۔ بالخصوص اُن کے لیے ہوگا، جو ظالم نظام اور ظالم کرداروں کی مزاحمت کے سلسلے میں مداہنت اختیار کرتے ہیں۔ جو لوگ ظلم کے سسٹم کو سمجھنے کے باوجود اُس کے حق میں بات کرتے ہیں اور اُس کے خلاف مزاحمتی شعور نہیں رکھتے۔ اور وہ دین میں مداہنت یعنی حق بات کو بیان نہ کرنے کے مرض میں مبتلا ہوں گے، یہ فتنہ اُن تک بھی پہنچے گا۔ ظالم تک تو پہنچے گا ہی کہ ظالم نے ظلم کیا ہے، لیکن وہ مظلوم جو اس فتنے میں اُن ظالموں کے آلہ کار بن کر اُن کے ظلم کا پروپیگنڈا کریں گے، یا اُن کے ظلم کے خلاف چپ رہیں گے، یہ فتنہ انھیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
اس آیتِ مبارکہ میں ’’فتنہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کرونا وائرس بھی ایک فتنہ ہے اور اس فتنے کی جو قرار واقعی حیثیت ہے، وہ سمجھنے کے لیے ہمیں امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔‘‘
سماج کی پرتوں میں فتنوں کی چھ اقسام
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حُجّۃُ اللّٰہ البالغہ‘‘ کے ’’بابُ الفِتن‘‘ میں چھ طرح کے فتنے بیان کیے ہیں:
(1) فتنۃ الرّجل فی نفسہٖ (انسان کا اس کی اپنی ذات سے متعلق فتنہ): یعنی انسانی نفس اپنے تین دائروں (نفس، قلب اور عقل) کے حوالے سے فتنے میں مبتلا ہوجائے۔ اس کا نفس مَلَکیت کی صفات کا حامل ہونے کے بجائے بہیمیت کے تابع ہوکر جانور بن جائے۔ قلب اپنے ارادوں اور عزائم میں اللہ اور اُس کے رسولؐ اور فرشتوں کی اطاعت کے بجائے ظالموں اور جانوروں کی اتباع کرنے لگ جائے۔ اس کی عقل میں گرد و پیش کے حقائق کا تجزیہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت ختم ہوجائے۔
(2) فتنۃ الرّجل فی أہلہٖ (انسان کا اپنے خاندان سے متعلق فتنہ): یعنی گھریلو نظام میاں بیوی کے تعلقات میں لڑائیاں اور فتنہ پیدا ہوجائے۔ طلاقیں کثرت سے ہونے لگیں۔ سماجی نظام کی بنیادی اکائی ’خاندانی نظام‘ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے۔
(3) فتنۃ تموج کموج البحر(ایسا فتنہ جو اس طریقے سے پھیلے گا، جیسے سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں): یہ فتنہ پورے اجتماع کو ہلا کر رکھ دے گا۔ جب کسی سوسائٹی میں بہترین عدل و انصاف کا نظام موجود ہو اور انفرادی سوچ کے حامل فتنہ پرور لوگ اس نظام میں مداخلت شروع کردیں اور قومی نظام ٹوٹنے لگے تو یہ بھی ایک بڑا فتنہ ہے۔
(4) فتنۃ ملّیۃ (پوری ملت ِاسلامیہ کے لیے فتنہ): ہر نبی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کے حواریین میں کچھ ناخلف لوگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ نااہل لوگ جب حکمرانی کرنے لگتے ہیں تو اس ملت کے لیے بہت بڑا فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ جیسے چنگیز خان نے مسلمانوں کی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا کر خلافت توڑ پھوڑ کر رکھ دی۔
(5) فتنۃ مستطیرۃ (فتنۂ عام): یہ فتنہ کل انسانیت کی چولیں ہلا دے گا کہ معاشرے میں اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنے اور اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھنے والے لوگ انسانیت کی اجتماعی ذمہ داریوں سے روگردانی کرکے خودساختہ روحانیات کی طرف چلے جائیں گے۔ دوسرے لوگ روحانیت سے ہٹ کر ہر چیز کو بالکل حیوانی پیمانے پر پرکھیں اور رائے قائم کریں گے۔ ان کے درمیان وہ لوگ ہوں گے کہ نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے۔ انھیں کوئی جس طرف لگا دے گا، اس طرف چل پڑیںگے۔ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوگی۔
(6) فتنۃ الوقائع الجویّۃ المنذرۃ بالإہلاک (وہ فتنہ کہ جو فضائی واقعات سے متعلق ہو، جن میں عام ہلاکت کا خوف ہو): جیسا کہ بڑے بڑے طوفان آنے لگیں، مختلف وبائیں پھیلیں، لوگ زمین میں دھنس جائیں، جگہ جگہ آگ پھیل جائے وغیرہ۔
موجودہ کرونا وائرس کا تعلق فتنہ نمبر5 سے ہے۔ یہ وبا نہیں ہے۔ وبا ایسی نہیں ہوتی کہ جس سے ساڑھے سات آٹھ ارب کی آبادی میں صرف چند ہزار لوگ مریں، بلکہ اس سے لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔ یہ انسان نما درندوں اور شیطانوں کا پیدا کردہ فتنہ اور بیماری ہے۔ یہ انسان کی حیوانیت اور درندگی کا مظہر ہے۔ اس کا تعلق قدرتی آفات سے نہیں ہے۔‘‘
خوف کا کاروبار ؛ سامراجی ہتھیار
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’قرآن حکیم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ’’جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اُسے مشہور کردیتے ہیں۔‘‘ (83:4) اس کے متعلق تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین اور کم سمجھ مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ وہ دشمن کے وار کو نہیں سمجھتے اور اس کے آلہ کار بن کر اس کے حملے کو پروپیگیٹ کرتے ہیں۔ خوف بیچتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے کاروبار اور بزنس کیا جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور اگر اس کو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے سچے رہنماؤں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو اس میں تحقیق کرنے والے ہیں۔‘‘ (83:4) یعنی اگر وہ اس خبر کو پروپیگنڈا کرنے سے پہلے رسولؐ کی ہدایات کے تناظر میں جائزہ لے لیتے، یا جو رسولؐ کی اتباع میں کام کرنے والے دین کا شعور اور سمجھ رکھنے والے سچے رہنما ’’اولی الامر‘‘ ہیں، ان تک بات پہنچا تے تو وہ ضرور جان لیتے کہ یہ تو جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ آج لوگوں میں خوف پیدا کرکے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ اُن کی مسجدوں کو تالے لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے مدرسے اور سکول بند کیے جا رہے ہیں۔
برطانوی سامراج اور یوریپن بھیڑیوں کی خوف بیچنے کی ایک تاریخ ہے۔ وہ خود تمام کیمیائی ہتھیار اور وائرسز بناتے ہیں اور پھر میڈیا وار کے ذریعے سے جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ آج امریکا معذرت کرتا ہے کہ ہم نے افریقا کے اندر بہت سے کیمیائی وائرسز کا تجربہ کیا۔ کیسی معذرت؟ دس بیس سال کے بعد کرونا وائرس کے حوالے سے بھی معذرت کریں گے کہ جی ہم نے کوئی تجربہ (experiment) کیا تھا۔ اس طرح اس انسانیت دشمن طاقتوں اور قوتوں کی یہ پوری تاریخ ہے۔ اس میں سب سے بڑا ہتھیار پروپیگنڈا ہے۔ قرآن نے کھل کر بتا دیا کہ یہ کم سمجھ مسلمان اور منافقین ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کو __ امن کا ہو یا خوف کا ہو __ پھیلاتے ہیں۔
آج کہا جاتا ہے کہ جی کرونا وبا تھی، جس پر چین والوں نے فتح حاصل کرلی۔ کیسے کی؟ سب سے پہلے انھوں نے وہاں میڈیا اور خوف پھیلانے والے لوگوں کو کنٹرول کیا۔ نفسیاتی وار کو روکا۔ پھر اس پورے دورانیے میں کہیں نہیں کہا کہ یہ امریکا نے حملہ کیا ہے۔ کیوں کہ حالتِ جنگ میں دشمن کے وار کو پروپیگیٹ کرنا‘ قوم کا مورال گرا دیتا ہے۔ نفسیاتی پستی پید اکرتا ہے۔ اس لیے جب انھوں نے مکمل طور پر مرض پر قابو پا لیا تو سب کچھ کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ یہ بدمعاشی اُن امریکی فوجیوں نے کی ہے، جو ’’ووہان‘‘ آئے تھے۔ اُن کے ذریعے سے یہاں یہ بیماری مسلط کی گئی۔ قومیں خوف بیچتی نہیں، خوف کو کنٹرول کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں خوف کا عالم یہ ہے کہ سعودی عرب میں مسجد ِحرام اور مسجد ِنبویؐ بند کردی۔ جمعہ پر پابندی لگا دی۔ مسجدوں کو اُجاڑ دیا۔ وہ اجتماعیت جس کے بارے میں رسول اللہؐ نے کہا تھا کہ: ’’جو جماعت کی نماز پڑھنے نہ آئے، میں چاہتا ہوں جا کر اُس کے گھر کو آگ لگا دوں‘‘ اس اجتماعیت کو توڑ دیا۔‘‘
فتنے کے مادی اسباب اور وظیفوں کی تکرار
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’عجیب معاملہ ہے۔ کسی بھی جنگ کا مقابلہ تو مزاحمتی شعور سے ہوتا ہے، یہاں وظیفے بتائے جاتے ہیں۔ اگر یہ کرونا وائرس بالفرض وبا یا عذاب ہے تو ایسا کیوں ہے؟ اجتماعیتیں توڑنے، حرام کھانے، رشوت لینے، لوٹ مار کرنے، بدانتظامی کرنے، سیاسی تباہی و بربادی اُتارنے کی وجہ سے یہ عذاب ہے اور اسے ٹالنے کے لیے وظیفے بتائے جا رہے ہیں کہ ’’لاَ إلٰہ إلَّا أنتَ سُبحانک إنّی کُنتُ من الظّالمین‘‘ پڑھو۔ ضرور پڑھنا چاہیے، لیکن پہلے تعین تو ہونا چاہیے کہ ظالمین سے کیا مراد ہے؟ ایک آدمی بے چارہ مزدور مظلوم، وہ ظالم کیسے ہوگیا؟ اس حکمران طبقۂ ظالمین کے ظلم کی نوعیت تو بتاؤ۔ حضرت یونس علیہ السلام سے ایک اجتماعی کام میں غفلت ہوئی۔ وہ قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ نے ان کی اس لغزش کی وجہ سے انھیں مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیا۔ اُنھیں احساس ہوا کہ میں نے اجتماعیت کو چھوڑ دیا۔ تو انھوں نے ’’لاَ إلٰہ إلَّا أنتَ سُبحانک إنّی کُنتُ من الظّالمین‘‘ پڑھا۔ آج ہمارے مذہبی لوگ اجتماعیت کا کام چھوڑ کر اپنی کوٹھیوں اور بنگلوں میں جا بیٹھے۔ وظیفہ پڑھنے اور بتانے لگ گئے۔ باہر نکلنے کی کوشش تو کرو، تم بزدل بن کر اندر بیٹھ گئے تو لوگوں کو حوصلہ کیسے ہوگا؟ لوگ کہیں گے کہ تمھارے دین کی تعلیم کی تاثیر کہاں گئی؟ اگر ایمان مضبوط ہے تو میدان میں آؤ۔ جدوجہد اور کوشش کرو۔ لوگوں کو حوصلہ دو۔ بتلاؤ کہ یہ عذاب کن اجتماعی گناہوں کی وجہ سے آیا؟ کس حکمران طبقے کے ظلم سے آیا؟ گھروں کا نظام درست کرو۔ اپنی ذات کو ٹھیک کرو۔ اپنے قلب اور عقل کو دینی شعور کا حامل بناؤ۔ اپنی اجتماعیت کو درست کرو۔ اپنی ملت کے نظام کو درست کرو۔ شیطان اور ظالم کے آلہ کار مت بنو۔ اور یہی احکامات اور ہدایتِ الٰہی لوگوں کو بتاؤ۔
یہاں زبان گونگی ہے، کیوںکہ سرمایہ داری نظام کے خلاف بولیں گے تو چالیس پچاس لاکھ روپے مہینہ ان کو کیسے ملے گا؟ سرمایہ دار کے مطلب کی ویڈیو بنا کر ڈالیں گے۔ اُن کے مفادات کی بات بیان کریں گے۔ کھرا سچ اور حق جو قرآن اور نبی اکرمؐ کی احادیث سے ثابت ہے، اُسے بیان کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ یہی وہی عمل ہے، جس سے قومیں تباہ ہوتی ہیں کہ جب اُن کے علما بک جائیں، اُن کے پیر وظیفے فروخت کرنے لگ جائیں، اُن کے سیاست دان نااہل ہوں، کرپٹ ہوں، انسانیت دشمنی کے رویے اختیار کریں تو ’’فتنۃ مستطیرۃ فی النّاس‘‘، وہ فتنہ پوری سوسائٹی میں پھیل جاتا ہے۔ آج یہ فتنہ پوری سوسائٹی میں تین طبقات پر مشتمل ہے۔ یا تو وہ لوگ ہیں، جو روحانیت کے نام پر اپنے اپنے گھروںمیں قید ہوگئے۔ باہر کے لوگوں سے ملنا جلنا انھوں نے ممنوع قرار دے دیا۔ اور حیوانیت کے حامل انسان نما درندوں نے اپنی درندگی بیچنے کے لیے خوف پھیلانا شروع کردیا۔ باقی لوگ نہ اِدھر کے ہیں، نہ اُدھر کے ہیں۔ کسی مذہبی رہنما کی بات سنتے ہیں تو وظیفے پر وظیفہ پڑھنے لگ جاتے ہیں۔ کسی دین بیزار کے پیچھے لگتے ہیں تو قدرتِ الٰہی کے جاری کردہ نظام کا انکار اور توہین کرنے لگ جاتے ہیں۔‘‘
موجودہ فتنے کا مقابلہ شعور اور ہمت سے کرنا ہے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے اپنے خطبے کے آخر میں فرمایا:
’’آج وائرس کے نام پر میڈیا وار بھی جاری ہے۔ معتدل اور متوازن راستہ یہ ہے کہ اس کا مقابلہ شعور اور ہمت سے کیا جائے۔ ایک آفت دشمن نے مسلط کردی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے وہ تمام احتیاطی تدابیر جو ماہر ڈاکٹر بتلا رہے ہیں، انھیں اختیار کرنا چاہیے۔ حضوؐر نے تو فرمایا کہ ’’ہمیشہ باوضو رہو۔‘‘ ایک وضوئے خفیف بھی ہے کہ اگر آپ پورا وضو نہیں بھی کرنا چاہتے تو چہرہ دھو لو اور ہاتھ دھو لو۔ یہ تو ہر حالت میں کیا جاسکتا ہے۔ کھانے کے بعد، باتھ روم استعمال کرنے کے بعد۔ اب ساری دنیا کو آفت پڑی ہوئی ہے کہ جی ہاتھ دھو لو۔ اگر حضوؐر کی بات پہلے مان لیتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حضوؐر نے فرمایا: بے وضو پر شیطان حملہ آور ہوتا ہے۔ جب وضو کیا ہوا ہوتا ہے تو شیطان اور ہر طرح کے وائرس سے انسان محفوظ ہوتا ہے۔ اگر حضوؐر کی بات پر یقین ہے اور روح میں طاقت ہے تو کوئی دنیا کا وائرس اثر نہیں کرسکتا۔ ہاں ڈھلمل یقین ہو، اور مسلمان کو حضوؐر کی بات پر یقین نہ ہو اور سائنس دان کی بات پر یقین ہو توپھر کیا کہا جاسکتا ہے۔ اب پورے چائنہ کو فکر پڑی ہوئی ہے کہ جن جانوروں سے وائرس پھیلتا ہے، انھیں ممنوع قرار دینا چاہیے۔ چودہ سو سال پہلے نبیؐ نے فرما دیا تھا کہ کون سے جانور انسانیت کے لیے حلال ہیںاور کون سے حرام اور نقصان دہ ہیں۔ آپؐ کی تو بات نہیں مانی اور اب فکرمند ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہم کم سمجھی کی بنیاد پر میڈیا کے پروپیگنڈے کو قبول کر رہے ہیں۔ آج دلیلیں دی جا رہی ہیں کہ سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے یوں یوں احتیاط کرنے کو کہا ہے۔ ہر وقت باوضو رہو تو کوئی شیطان تم پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ کیا اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا؟ اگر اپنے اوپر خوف مسلط کرلو گے تو خوف زدہ آدمی خواہ کتنے ہی وظیفے پڑھے، وہ اس خوف سے ہی مر جائے گا۔ اس لیے تدابیر اختیار کرو، لیکن دوسروں سے محبت سے ملو۔ اگر نفرت سے دیکھو اور بغض سے ملو گے تو ضرور وائرس اثر کرے گا۔ آپ کسی کو گھور کر نفرت سے دیکھیں گے تو آپ کے جسم سے نفرت خارج ہوگی اور سامنے والے کی طرف سے بھی اسی طرح کا ردِ عمل آئے گا۔ اس کا اثر آپ کے وجود پر طاری ہوگا۔ اس لیے پیار سے دیکھو، پیار سے ملوجلو۔ کیوںکہ محبت انسانیت کی اساس ہے۔
حضوؐر نے جو فرائض و واجبات، ذکر اذکار، تسبیحات اور مسنون چیزیں بیان کی ہیں، ان کی پابندی کرو۔ وہ انسانیت کی ترقی اور بھلائی کے لیے ہیں۔ نماز باجماعت کی پابندی کرو۔ قرآن حکیم کی تلاوت کرو۔ ذکرُ اللہ سے تعلق قائم کرو۔ قلب میں دینی شعور پیدا کرو۔ عقل میں سمجھ اور بلندی پیدا کرو۔ اجتماعی معاملات؛ سیاسیات، معاشیات، سماجیات کو درست تناظر میں سمجھو اور بہترین انسانیت دوست اجتماعی نظام قائم کرو تو کوئی شیطان اللہ کی طاقت اور اللہ کے ایمان، اللہ کے کلام سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ اس فتنے کا مقابلہ جرأت، ہمت اور حوصلے سے کرو۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ آمین‘‘
Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences