اس سال اپریل سے ستمبر تک کے دورانیے میں اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے واقعات اور اقتدار کی چھینا جھپٹی نے ریاست کو بالادست طبقوں کے ہاتھ میں لعبِ صِبیان (بچوں کا کھیل) اور بازیچۂ اَطفال (بچوں کا تماشہ) بنا کر رکھ دیا ہے۔ قومی خودداری سے محروم اس ملک کے فیصلے آج بھی طاقت کے بیرونی مراکز میں ہورہے ہیں، خواہ وہ لندن ہو یا واشنگٹن۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہماری اشرافیا کی ڈوریں کس طاقت کے ہاتھ میں ہیں۔ کلونیل عہد میں ہندوستانی رعایا پر حکمرانی کے لیے وائسرائے لندن سے بھیجے جاتے تھے۔ بہ طور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آمد اسی غلامانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جب پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے زبردستی استعفیٰ لکھوایا تھا تو معزول وزیراعظم نے اپنی مدد کے لیے پہلی کال لندن کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن جب انھوں نے ٹیلی فون کا ریسیور اُٹھایا تو ان کے فون کا کنکشن کاٹا جاچکا تھا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری بڑی ہے کہ اس ملک کی آزادی کے دعوے داروں نے کب کب لندن سے مدد مانگی۔ اس لیے ہماری سیاست میں لندن کا ایک مخصوص کردار ہمیشہ رہا ہے، جو آج بھی موجود ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔
ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں عالمی مالیاتی اداروں کے ایما پر معین قریشی، شوکت عزیز اور رَضا باقر کی آمد ابھی تک قوم کے حافظے میں محفوظ ہوگی۔ پھر بھی ہمارے ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بیرونی مداخلت نہیں ہوتی۔ پاکستان کی تاریخ میں بالعموم اور موجودہ تناظر میں بالخصوص پاکستان میں اقتدار کے حریفوں کے درمیان اقتدار پسندی کی جنگ نے اس ملک کے ہر ادارے اور شعبے کو بُری طرح سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اوّل روز سے اس نومولود ریاست پر قومی جذبے سے عاری ایسے مفاد پرست طبقے مسلط ہوئے، جنھوں نے بیرونی عناصر کے زیرِ اثر نظام کی بنیادیں ہی غلط طور پر اُٹھائیں:
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا مے رَوَد دیوار کج
(پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو ثُریا تک دیوار ٹیڑھی ہی جائے گی)
اقتدار کے حصول کی اس جنگ کو بے چارے عوام اکثر حقیقی تبدیلی کی جنگ سمجھ بیٹھتے ہیں، حال آںکہ پاکستان میں طاقت ور حلقوں سمیت تمام بڑی پارٹیوں اور اتحادوں کے شریک عالمی سرمایہ داری نظام کے سہولت کار کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے پاس عوام کی حقیقی معاشی خوش حالی اور سیاسی خود مختاری کا کوئی جامع اور ٹھوس پروگرام سِرے سے ہے ہی نہیں۔ اور نہ ہی اس پر کوئی تیاری ہے۔ بس محض حصولِ اقتدار کے لیے خوش حالی اور سہانے مستقبل کا راستہ تکتے عوام کو دامِ فریب میں اُلجھائے رکھنے کے لیے جھوٹے وعدے اور دل بہلانے کے لیے جذباتی نعرے ہیں۔ اپوزیشن کی سر گرم جماعت پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھی تو اہم عہدوں پر بار بار کی تبدیلیوں اور تقرریوں سے یہ سمجھنا آسان ہوگیا تھا کہ ان کی اپنے دعوؤں کے مطابق نہ تیاری ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ افراد ہیں، ورنہ عوام میں سے ایک بہت بڑا طبقہ ان کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو آمادہ تھا۔ بہ قولِ شاعر ؎
کوئی تعمیر کی صورت تو نکلے
ہمیں منظور ہے بنیاد ہونا!
لیکن وہ تقریباً اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں کوئی بھی جوہری تبدیل لانے سے قاصر رہے، لیکن اب وہ پھر میدانِ سیاست میں پہلے سے بڑھ کر دعوؤں کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر دوبارہ ان کے سر پر اقتدار کا ہُما بیٹھا تو وہ خفیہ سمجھوتوں کے ایوانوں سے پرواز کرتا آئے گا۔ خود داری اور حقیقی آزادی کے سلوگن محض نعرے ثابت ہوں گے۔
دوسری طرف اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہوئے طبقے کا سیاسی قبلہ ہی لندن اور واشنگٹن ہے اور انھیں پاکستان میں بنامِ مذہب سیاست کرنے والے طبقوں کی اشیرباد بھی حاصل ہے، جو اپنے مفادات کے لیے سیاسی مُبارَزَت میں پیٹا جانے والا ڈھول سینے پر سجائے ان کے پسِ پُشت کھڑے ہیں۔ برسرِ اقتدار طبقوں کو بھی اپنے تجربوں اور تربیت یافتہ ٹیم ہونے کا دعویٰ تھا، لیکن اَن دیکھی چھتری تلے اقتدار پانے کے بعد ان کے بھی سارے دعوے سراب ہوئے۔ ویسے پاکستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ان کی کارکردگی سے واقف ہیں کہ ان کے تجربے قومی وقار اور معیشت کی لُٹیا ڈبونے میں کیا کمال ہنر رکھتے ہیں۔ ویسے یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی کا ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار نکال کر پاکستان کی زندگی کے باقی بچ جانے والے ماہ و سال کے سیاہ وسفید کے مالک سارے طبقے آج کل ایک ہی ’’پیج‘‘ پر ہیں، لیکن حیرت ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے بیش تر وقت پر قابض رہنے کے باوجود بُری کارکردگی گنوانے کے لیے صرف پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور کو اپنا موضوعِ سخن بناتے ہیں۔ حالیہ اور سابقہ وزرائے اعظم دونوں گزشتہ 75 سالہ دور کا نوحہ پڑھ کر عوام الناس سے آئندہ کے لیے تعاون طلب کرتے ہیں اور اپنے اپنے درباریوں سے داد بھی پاتے ہیں۔یا لَلْعَجَب!
پاکستانی سیاسی نظام کا ڈھانچہ جن سیاسی، مذہبی اور سول و فوجی عناصر سے ترکیب پایا ہے، یہ اپنی سرشت میں ابھی بھی نو آبادیاتی اور گماشتہ عہد میں زندہ ہے۔ اس لیے وہ اس ریاست کے مسائل کو اپنے ہی مائنڈ سیٹ سے حل کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی بھی ہمارے ظاہری سیاسی نظام پر ایک سایہ منڈلاتا رہتا ہے اور وہ فرنٹ پر آئے بغیر ساری صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کا خواہاں رہتا ہے، لیکن اب ہم دنیا سے پیچھے رہ جانے کے باوجود سیاست کے قومی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اب ذرائع ابلاغ کی ترقی اور انسانی شعور کی بیداری اس سارے کھیل کو سمجھنے لگی ہے اور لوگ تجسس بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے زیرِ لب کہتے سنائی دیتے ہیں ؎
کبھی خیال کی صورت کبھی صبا کی طرح
وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
موجودہ حالات میں اس سہ فریقی کردار کے تجزیے کے بعد یہ بات سمجھنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے کہ یہ ہمارا سارا سیاسی کھیل ایک فریب ہے، جو صرف عوام کے جذبات سے کھیلتا ہے۔ اب اس نظام کی حقیقی تبدیلی‘ اصل کرنے کا کام ہے اور یہی راستہ قومی وقار کی بحالی کا آخری راستہ ہے۔ (مدیر)
Tags
Muhammad Abbas Shad
Editor Monthly Rahimia Magazine, Lahore
Related Articles
جمہوری تماشہ اور گماشتہ میڈیا
کسی بھی معاشرے میں حقیقی سیاسی عمل _ جو کسی بھی دباؤ سے آزاد ہو _ اس معاشرے کے مسائل کا حقیقی حل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں سیاسی عمل کٹھ پتلیوں کے سہارے اَن دیکھی قوتیں ک…
تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا آج کل ہمارے ہاں سیاسی حالات کی بے یقینی کی وجہ سے ایک طوفانی ہیجان برپا ہے۔ جب کبھی کسی ذمہ دار م…
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
وفاق المدارس، نئے تعلیمی بورڈزاور جدید وقدیم نصابِ تعلیم کا مسئلہ !
پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ …