عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ _ رضی اللّٰہ عنہٗ _ رَفَعَہٗ: ’’مَنْ أَفْطَرَ یَوْماً فِيْ رَمَضَانَ، مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضِہِ صِیَامُ الدَّھْرِ، وَإِنْ صَامَہٗ‘‘۔
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مرفوع روایت ہے کہ: ’’جس نے رمضان میں کسی عذر اور بیماری کے بغیر روزہ چھوڑ دیا، اگر وہ ساری زندگی روزے رکھتا رہے، پھر بھی وہ اس کی فضیلت کو نہیں پاسکتا‘‘۔) (صحیح بخاری، حدیث: 1935)
انسان اپنی طبیعت کی بے اعتدالی کی وَجہ سے گناہ کرتا ہے، جس سے اس کی روحانیت متأثر ہوتی ہے۔ سال بھر کی بے اعتدالی بہت بڑا بوجھ اور خدا سے دوری کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس مرض کا علاج اور گناہوں کے بوجھ سے جان چھڑانے کا بہترین ذریعہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے۔ مؤمن کی زندگی میں رمضان کے مہینے کا آنا‘ اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا تحفہ ہوتا ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ فرض روزے کی ادائیگی ایسا مبارک عمل ہے، اگر اسے مطلوبہ شرائط کے ساتھ اختیار کیا جائے تو یہ طبیعت کی بے اعتدالی، گناہوں کے بُرے اَثرات سے نجات اور جسمانی قوت کی بحرانی حالت کو کنٹرول کرنے میں مددگار بن سکتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: ’’روزہ رکھا کرو! اس کی مثل کوئی عمل نہیں‘‘ (سنن نسائی)۔ اس ریاضت سے انسان میں نیکی کی طرف رُجحان، عبادات کا شوق اور گناہوں سے بے رغبتی اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے روزے کی فرضیت کے حکم کے ساتھ قرآن میں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کہا گیا ہے کہ اس عمل سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم میں تقویٰ کی خوبی پیدا ہوجائے، جس کے نتیجے میں ایک مؤمن کے لیے اللہ کی طرف بڑھنے کا راستہ آسان ہوجاتا ہے، جو اس کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔
سابقہ تمام شریعتوں میں روزہ فرض کیا گیا تھا۔ ہماری شریعت میں رمضان کا مہینہ روزوں کی فرضیت کا ہے، اس کا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس میں غفلت سے انسان بہت نقصان کربیٹھتا ہے۔ زیرِنظر حدیث کے مطابق اگر کوئی شخص بغیر کسی شرعی عذر اور بیماری کے‘ ماہِ رمضان المبارک کا ایک روزہ بھی چھوڑ دیتا ہے تو اس کے بعد اگر وہ زندگی بھر بھی روزے رکھے، تو اس سے اس نقصان کا ازالہ نہیں ہوسکتا، جو ایک روزہ چھوڑنے سے ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے بغیر کسی عذر اور نہایت مجبوری کے‘ رمضان کے روزے نہیں چھوڑنے چاہئیں، بلکہ ہر ممکن حد تک اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
رمضان المبارک کے روزے ان احتیاطی تدابیر اور ہدایات کی روشنی میں رکھنے چاہئیں جو ہمیں رسول اللہﷺ سے ملی ہیں۔ اس ریاضت سے انسان کو نہ صرف پچھلے گیارہ ماہ، بلکہ زندگی بھر کے گناہوں کی نحوست سے اپنا دامن چھڑانے کا موقع میسر آجاتا ہے اور آئندہ کے گیارہ ماہ بھی نیکیاں کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…
رمضان المبارک انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے
۳؍ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ / 16؍ اپریل 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: &rs…
رمضان المبارک میں حضورﷺ کے دو خصوصی معمولات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: ’’کَانَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ یَلْقَاہُ فِي کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُەُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِﷺ أَ…
احکام و مسائل رمضان المبارک
۱۔ ہر مسلمان مرد وعورت، عاقل، بالغ پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہے۔ ۲۔ شریعت میں روزے کا مطلب ہے کہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت…