22؍ ستمبر 2023ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:
’’معزز دوستو! کتابِ مقدس قرآن حکیم وہ عظیم الشان کتاب ہے جو رہتی دنیا تک انسانی مسائل کے حل کے لیے ایک کامل اور مکمل نظامِ حیات انسانیت کے سامنے پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب انسانیت کے نام اللہ کا جاری کردہ آئین و دستور ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یہ انسانیت کے نام اللہ کے خطوط ہیں۔ ہر سورت ایک نیا خط ہے۔ جیسے دنیا بھر کی حکومتیں نظم و نسق چلانے کے لیے سرکلر جاری کرتی ہیں، نظامِ مملکت چلانے کے لیے عوام کو ہدایات دیتی ہیں، فرامین اور احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی شہنشاہِ مطلق ذاتِ باری تعالیٰ نے انسانیت کے نام یہ فرامین جاری کیے ہیں۔ اس دنیا میں جو اللہ کے نمائندے اور ترجمان ہیں، ان کی زبانی اللہ نے اپنے یہ فرامین و احکامات انسانیت کے نام جاری کیے ہیں کہ انسان ان احکامات اور آئین و دستور پر عمل کرکے دنیا میں بھی کامیابی حاصل کرے اور آخرت کی کامیابی بھی حاصل کرے۔
مسلمان کو اسی لیے دعا سکھلائی گئی کہ:
﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ﴾ (-2 البقرہ: 231)
کہ دنیا کی ترقی اور کامیابی بھی ہے اور آخرت کی ترقی اور کامیابی بھی مطلوب ہے۔ صرف دنیا کی ترقی ہو اور آخرت کی ناکامی ہو، یا صرف آخرت میں کامیابی کی بات کی جائے اور دنیا میں کامیابی اور ترقی کو نظرانداز کر دیا جائے۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔ دین دونوں دائروں کے بارے میں واضح ہدایات جاری کرتا اور احکامات بتلاتا ہے۔ فرامین و ارشاداتِ نبوی انسانیت کی دونوں حوالوں سے رہنمائی کرتے ہیں۔
دوسری بڑی اہم ترین بات یہ سمجھنا چاہیے کہ دین اسلام وہ واحد دین ہے جو تمام انسانوں کی طرف مبعوث ہونے والے نبی الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا ہے۔ خود رسول اللہؐ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے کے انبیاؑ اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور اور میری بعثت تمام انسانیت اور اقوامِ عالم کی طرف ہے۔ تمام اقوام و ملل، تمام معاشرے، تمام قومیں دین اسلام کی مخاطب ہیں۔ اس لیے کتابِ مقدس قرآن حکیم کا آغاز جس پہلی سورت ’’الفاتحہ‘‘ سے ہوا ہے، اس میں انسانوں کو سب سے پہلے یہ بات سکھلائی گئی کہ اللہ تمام جہانوں کا رب ہے۔ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ ’’رب العالمین‘‘ کا مطلب ’’رب الاقوام‘‘ ہے۔ کیوں کہ انسانیت کا ہر عالَم الگ قوم پر مشتمل ہے۔ ہر ایک قوم اپنی ایک خاص شناخت رکھتی ہے۔ اس کی اپنی ایک تہذیب، ثقافت، زبان، اس کی اپنی ایک دھرتی، اپنا آسمان، اپنی زمین ہے۔ یہ بین الاقوامی کتاب ہے۔ تو کوئی بھی عالَمِ انسانیت میں کوئی قوم، انسانوں کا کوئی گروہ جب تک اپنی قومی شناخت قائم نہیں کرتا، وہ اقوامِ عالم میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا‘‘۔
’آزادی‘ تمام مذاہب میں بنیادی انسانی حق ہے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ملّتِ طبیعیّین (مادیت) کی اساس پر بنے ہوئے نظام ہائے حیات ہوں، یا ملّتِ نَجّامین (علمِ نجوم) کی اساس پر اقوامِ عالم نے اپنے اپنے مذاہب اور نظام وجود میں لائے ہوئے ہوں، یا ملتِ حنیفیت کی اساس پر ابراہیمی اُصول اور ضابطوں پر اپنے اپنے معاشروں کی تشکیل کی ہو اور پھر ملت حنیفیہ میں ملتِ یہود، ملتِ نصاریٰ اور ملتِ محمدیہ کا تنوع ہو، یہ تمام تنوعات ہیں۔ انھیں سے اُمم اور اقوام بنی ہیں۔ اسی طرح آج کے جدید دور میں اقوامِ عالم میں ریاستوں کی تشکیل کے لیے لوگوں نے اپنی زبان، تہذیب، ثقافت، جغرافیے کی بنیاد پر جو آج ریاستیں تشکیل دی ہیں، وہ کوئی دو سو کے قریب ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک سو ترانوے ممالک رُکن ہیں۔ کسی زمانے میں سات اقلیم تھے۔ چند ملتیں اور اقوام تھیں۔ ان سب میں ایک بات طے ہے کہ قدیم زمانے سے اب تک انسانیت ایک ہے۔ اس کے مسائل مشترک ہیں۔ اور ان مشترک مسائل میں ہر قوم نے انسانیت کے اُن بنیادی اَساسی اُصولوں کو ضرور اختیار کیا ہے جو انسانیت کے ضمیر کی آواز ہیں۔
’انسان‘ نامی اس مخلوق کا بنیادی اَساسی اُصول یہ ہے کہ وہ آزاد پیدا ہوا ہے۔ آزادی اُس کی بنیادی قدر اور ویلیو ہے۔ ایک انسان کو اس کی جان، مال، عزت آبرو کے حوالے سے امن چاہیے۔ یہ ایک مشترکہ اُصول ہے۔ انسانوں کے درمیان معاملات، معاہدات اور سوشل کنٹریکٹ وجود میں آئیں، تو اُس کی اَساسیات عدل کی ہوں گی تو سوسائٹی کی ضرورت پوری ہوگی، یہ ایک آفاقی اُصول ہے۔ اسی طرح انسان کی روٹی روزی کا بندوبست، معاشی ضروریات کی کفالت تمام انسانوں کی مشترکہ ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسانیت کو تخلیق کیا تو اس کے ساتھ ساتھ اُن نوامیسِ کلیہ کو بھی انسانیت پر نافذ کیا، جو تمام انسانوں میں مشترکہ پائی جاتی ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ انسانیت کے نوامیسِ کلیہ وہ بنیادی پرنسپلز ہیں جو تمام انسانوں میں یکساں اور مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں۔ وہ اللہ نے انسانیت پر نقش کر دیے ہیں۔ معاشی ترقی، عدل و انصاف، امن و امان، آزادی اور حریت ایسی بنیادی اقدار دنیا کے ہر آئین و قانون، دستور، مذہب و ملت، تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب یہ نہیں سکھاتا کہ انسانوں پر ظلم کیا جائے، اُنھیں غلام بنایا جائے، اُن پر قبضہ کیا جائے۔ سرکشی اور طغیانی، فرعونیت اور قارونیت، جس کے ذریعے سے انسانیت کو یرغمال بنایا جائے، دنیا کا کوئی مذہب اپنی مذہبی تعلیم میں یہ بات نہیں کہتا۔ چاہے وہ سماوی مذہب ہوں یا غیرسماوی۔ ہر مذہب کی بنیادی خصوصیت انسانی اقدار پر مشترک ہے۔ یہ ’’ناموسِ کلی‘‘ ہے‘‘، جو دنیا کے ہر مذہب، قوم، آئین اور ہر دستور کا حصہ ہے‘‘۔
انسانی افعال و اعمال کے احتساب کا دینی نظریہ
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’آج اقوامِ متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر میں ان حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ افراد کو غلام بنانا، ممالک کو یرغمال بنانا، آزادی کے اظہارِ رائے پر قدغن لگانا‘ انسانیت کی توہین ہے۔ انسانوں کا مل کر اپنا اجتماعی نظام بنانا اُن کا حق ہے۔ پچیس تیس کے قریب بنیادی انسانی حقوق اقوامِ عالم نے تسلیم کرلیے ہیں۔ کسی قوم اور کسی اُمت کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے، اپنی ضرورتوں اور تقاضوں کی بنیاد پر اپنے لیے ایک آئین اور دستور بنائے۔ اور پھر اس آئین و دستور کے مطابق اپنے ادارے، سسٹم، طریقۂ کار، پروسیجرز تشکیل دیں۔ یہی اُس قوم اور اُمت کا اُصول، ضابطہ اور طریقۂ کار ہے، اگر وہ تحریری ہے تو اسے ـ’’الکتاب‘‘ کہیں گے۔
قرآن حکیم نے کہا ہے کہ یہ جو اصولِ کلیہ ہم نے انسانیت کے مقرر کیے ہیں، ان کی اساس پر دنیا کی ہر قوم کا احتساب ہوگا۔ اور دنیا میں اس احتساب کو یقینی بنانے کے تناظر میں اللہ نے ’’سورت الجاثیہ‘‘ میں فرمایا ہے: ’’اور تُو دیکھے (گا) ہر فرقے کو کہ بیٹھے ہیں گھٹنوں کے بل، ہر فرقہ بلایا جائے (گا) اپنے اپنے دفتر (اعمال نامہ) کے پاس، آج بدلہ پاؤ گے جیسا تم کرتے تھے‘‘۔ (-45 الجاثیہ: 28) آدمؑ سے لے کر آخری انسان تک اربوں کھربوں جو انسان وجود میں آئیں گے، سب کی سب اُمتیں وہاں جمع ہوں گی۔ سب اقوام جمع ہوں گی۔ نبی اکرمؐ فرماتے ہیں کہ: ’’کأنِّی انظُرُ إلیہم‘‘ (گویا کہ میں ابھی بھی اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ سب قومیں گھٹنے ٹیک چکی ہیں۔) ’’جُثوت‘‘ پنجوں اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہونے کو کہتے ہیں۔ جب آدمی کسی حساب کتاب کے انتظار میں پریشانی کے عالم میں ہو تو سیدھا کھڑا ہونے کے بجائے گھٹنوں کے بل زمین پر اُس کے پاؤں کے پنجے اور گھٹنے لگے ہوئے ہوں تو اُسے ’’جاثیہ / الجثو‘‘ کہتے ہیں۔
پھر اُنھیں ان کی ’’کتاب‘‘ کی طرف بلایا جائے گا۔ کتاب سے مراد کیا ہے؟ مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے دونوں معنی اور مطلب ہوسکتے ہیں: (1) وہ کتاب جو فرشتوں نے ’’نامہ اعمال‘‘ کے طور پر لکھی ہے، (2) یا وہ کتاب جو ہر قوم اور اُمت کے لیے اللہ نے نازل کی، مثلاً تورات، انجیل، زبور اور قرآن حکیم۔ سزا یا جزا کا تعلق انسان کے کسب کے ساتھ ہے۔ انسان نے جو کسب کیا ہے، اُس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر انسان یا قوم کا کسب اُس الکتاب کے مطابق ہو، جو اللہ کی طرف سے نافذ کی گئی ہے۔ اگر تو اُس کے مطابق وہ عمل ہوا تو پھر ٹھیک ہے، جو ایمان لائے اور صحیح عمل کیا، اُن کے لیے جنت ہے۔ اور جنھوں نے کفر کیا اور کتاب پر عمل نہیں کیا، اُس کے خلاف کسب کیا تو پھر سزا کا مستحق ہے۔ دونوں کتابوں: فرشتوں کی لکھی ہوئی کتاب ’’اعمال نامہ‘‘ اور انسانوں پر نازل کردہ کتاب کے درمیان موازنہ کیا جائے گاکہ انسانوں کا اعمال نامہ ہماری نازل کردہ کتاب کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس کے مطابق انھیں سزا اور جزا دی جائے گی‘‘۔
قرآنی بین الاقوامی انسانی اُصول اور سامراج کا استعماری کردار
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’سورت الجاثیہ‘‘ میں انسانیت کے لیے بین الاقوامی سطح کے بنیادی اساسی اُصول بیان کیے گئے ہیں۔ ہر قوم ان اُصولوں پر متفق ہے۔ اُن بنیادی اَساسی اُصولوں پر کیا انسانیت نے مشترکہ طور پر کام کیا ہے یا نہیں؟ یہ ہے بنیادی سوال۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہمیں یہ شعور حاصل کرنا ہے کہ کیا ہر قوم جو اپنی ایک قومی شناخت پیدا کر چکی ہے، اپنی ریاست بنا چکی ہے، اپنی سرحدیں متعین کرچکی ہے، اپنی قوم کی سیاست، معیشت، سماجی تعلقات کو اُستوار کرنے کی الگ سے ایک منفرد شناخت پیدا کرچکی ہے، اور اُس کی اَساس پر دنیا کی ہر قوم نے اپنے اپنے آئین اور دساتیر بنا لیے ہیں، اقوامِ عالم کے دو سو کے قریب سربراہانِ مملکت اور اُن کے نمائندگان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کیا اُن کامعاشرہ، اُن کی قوم، بلکہ کل انسانیت بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تمام اُمور پورے کر رہی ہے یا نہیں؟
آج دنیا کا بدمعاش ملک‘ ریاستوں کو غلام بنانے کے لیے اُن کی سیاست میں مداخلت کرتا ہے، اُن کے حکمران بدلتا ہے۔ اُن کی معیشت کو تباہ و برباد کرتا ہے، اُن کی منڈیوں پر قبضہ کرتا ہے، اُن کے انسانوں کو یرغمال بناتا ہے، انسانی حقوق پامال کرتا ہے۔ اُن کے معدنی ذخائر پر قبضہ کرتا ہے۔ حال آں کہ اقوامِ متحدہ کا آئین خود بنایا، کہ ریاستوں اور اقوامِ عالم کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ تحفظ کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ مسلط کرنا درست ہے؟ پھر کیا یہ ملک جو وجود میں آئے، یہ کسی نیچرل طریقے سے وجود میں آئے؟ وہاں کی اقوام نے اپنی آزادی اور حریت کی بنیاد پر یہ ریاستیں تشکیل دیں؟ یا عالمی سامراج نے اپنے مفادات کے مطابق اس دنیا کی بندربانٹ کی ہے۔
ہمیں سو سال پہلے کا وہ معاہدہ یاد رکھنا ہے جب 1916ء میں جنگِ عظیم اوّل کے دوران برطانیہ اور فرانس نے معاہدۂ سائیکوٹ پائیکوٹ(Sykes Picot Agreement)کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ کے ملکوں کی بندربانٹ کی تھی کہ یہ ملک میرا، یہ ملک تیرا۔ مسلمان ملکوں اور ریاستوں کے حصے بخرے کیے گئے۔ کُردوں کو چار ملکوں میں بانٹ دیا۔ پٹھانوں کو دو تین ملکوں میں بانٹ دیا۔ عربوں کی چودہ ریاستیں بنا دیں۔ ایک ہندوستان کی سات ریاستیں بنا دیں۔ جب کہ یورپ کے پچیس ملکوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے یورپی یونین بنا دی۔ کیا قوموں کی آزادی کی حفاظت کا یہ بنیادی قانون یا ناموسِ کلی جو انسانیت کا بنیادی حق تھا، خود اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق تھا؟ جب تمام کی تمام انسانی اقوام آزادی اور حریت کا حق رکھتی ہیں تو پھر یہ پانچ ویٹو پاور کہاں سے آگئیں کہ جو باقی ملکوں کی قسمت کا فیصلہ کریں؟ اُن میں سے ایک ملک جو بھی ویٹو کردے، پوری دنیا کے انسانی مسائل، تمام اقوام متفق ہوجائیں، وہ ایک ملک دو سو ملکوں کو یرغمال بنا لیتا ہے۔ کیا اسے عدل کہتے ہیں؟‘‘
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
Hazrat Hakeem ibn Hizam al-Qurashi al-Asadi
Hazrat Hakeem ibn Hizam al-Qurashi al-Asadi, also known as Abu Khalid Maki, was deeply devoted to the Prophet Muhammad (peace be upon him). He embraced Islam during the…
اسلام میں اجتماعیت مقصود ہے
۱۵؍ محرم الحرام ۱۴۲۲ھ / 4؍ ستمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمای…
اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا
یکم؍ اکتوبر 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز …