عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو رضی اللّٰہ عنہ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیّ ﷺ: ’’الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُھُمُ الرَّحْمٰنُ، ارْحَمُوا أَہْلَ الْأَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِیْ السَّمَائِ‘‘۔ (سنن ابو دائود، حدیث: 4941)
(حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ: نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’رحمن‘ رحم کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔)
اس حدیث میں نبی اکرمﷺ اس کائنات کے نظامِ ربوبیت کی اَساس بیان کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہونے کے ناتے صفتِ رحمت پر اس کائنات کے نظام کو چلا رہے ہیں۔ مؤمنین کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ بھی صفتِ رحمت کی بنیاد پر شخصی، خاندانی اور اجتماعی نقطۂ نگاہ اپنائیں۔ جب خاندانی نظام صلہ رحمی کے اصول پر قائم ہوتا ہے اور اجتماعی سوچ کی روشنی میں بچوں کی تربیت ہوتی ہے اور اس سوچ کے تابع انسانوں کا مزاج ڈھلتا ہے تو ایسے لوگ قومی اور بین الاقوامی دائرے میں بھی اسی سوچ کے تحت خُلق اختیار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
صفتِ رحمت اور صلہ رحمی کے اُصول پر خاندانی نظام میں زندگی گزارنے والوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قومی اور بین الاقوامی اُمور میں عمدہ اَخلاق کا مظاہرہ کریں گے۔ جب انسان اس کا عادی اور خوگر ہوجاتا ہے تو اس کی سماجیات، سیاسیات، معاشیات، اس کا اِنفرادی اور اجتماعی طرزِ عمل صفتِ رحمت کے اُصول پر ہی ڈھلتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب کے انسانوں سے تعلق قائم کرتا ہے۔ ایک خدا اور ایک مخلوق کے اُصول پر وہ تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتاہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیابت اور خلافت کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی تربیت اور کردار و عمل اس کا عملی ثبوت ہے۔
مؤمن کا یہ طرزِعمل انسانیت کے لیے آسانی، کامیابی، ترقی اور خوش حالی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک مؤمن سے اللہ تعالیٰ یہی چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اِنفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اسی صفتِ رحمت کے اصول پر ریاستی نظام تشکیل دے، تاکہ یہ دنیا جنت نظیر بن جائے۔ جب انسان امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی معاشی ضروریات کو بہ آسانی پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور معاشی بدحالی کے بھیانک اَثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے تو پھر اُسے اُخروی کامیابی کے لیے یکسو ہونے میں کوئی رُکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ اللہ کی طرف اس کی توجہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ یوں دُنیوی کامیابی اور اُخروی فلاح کا راستہ اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے اور صفتِ رحمت کے اصول پر دُنیوی نظام کی تشکیل انسان کے دنیا و آخرت کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…