امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)
(4)نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’’جس نے ایک نیکی کی، اُس کے لیے اُس جیسی دس نیکیاں ہیں اور مَیں اس میں مزید بھی اضافہ کر دیتا ہوں۔ اور جس نے ایک بُرائی کی، تو اُسے اُس ایک گناہ کے برابر سزا دی جائے گی، یا مَیں اُسے معاف کردوں۔ اور جو آدمی میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں ایک ذِراع (ڈیڑھ فٹ) اُس کے قریب ہوجاتا ہوں۔ اور جو ایک ذِراع میرے قریب ہوتا ہے، تو میں اپنے دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اُس کے قریب ہوجاتا ہوں۔ اور جو میرے پاس پیدل چل کر آتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں۔ اور جو آدمی مجھ سے رُوئے زمین کے برابر گناہ کرکے آتا ہے اور اُس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو میں اُس کے گناہوں کے برابر اُس کی مغفرت کردیتا ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2225)
میں کہتا ہوں کہ: انسان جب مر جاتا ہے اور دنیا سے پشت پھیر لیتا ہے تو اُس کی بہیمیت کی تیزی‘ کمزور ہوجاتی ہے۔ اور اُ س پر اُس کی ملکیت کے انوار چمکنے لگتے ہیں۔ اس طرح اُس کی تھوڑی کی ہوئی نیکیاں بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔ وہاں جا کر حیوانیت کے کمزور ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق گناہ نیکیوں کی نسبت سے بہت عارضی اور کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قائم کردہ نظام اور تدبیر خیر کے پھیلاؤ پر مبنی ہے۔ وہاں جا کر خیر وجودکے زیادہ قریب ہوجاتی ہے اور شر اور بُرائی مزید دور ہوجاتی ہے۔ یہی مطلب ہے اُس حدیث کا، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’اللہ کی رحمت کے سو درجے ہیں۔ اُن میں سے صرف ایک درجہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر نازل کیا ہے۔ اسی بات کو نبی اکرم ﷺ نے اسے ایک ’’بالشت‘‘، ایک ’’ذِراع‘‘ اور دونوں ہاتھوں، پیدل چلنے اور تیز دوڑنے کی مثالوں کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔
اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور ’’تطلُّع الی الجبروت‘‘ (عالمِ جبروت کی طرف جھانکنے) سے زیادہ کوئی چیز آخرت میں نفع بخش نہیں ہے۔ اور یہی مطلب ہے اس حدیث کے اس جملے کا کہ: ’’جو آدمی رُوئے زمین کے برابر گناہ کرکے آتا ہے اور اُس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو میں اُس کے گناہوں کے برابر اُس کی مغفرت کردیتا ہوں‘‘۔ اور ایک دوسری حدیث میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول بیان کیا گیا ہے کہ: ’’کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اُس کا ایک ربّ ہے، جو گناہوں کو معاف کرسکتا ہے اور اُس پر سزا بھی دے سکتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2333)
(5)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:’’جس نے میرے ولی اور دوست سے دُشمنی رکھی تو میرا اُس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اور میں نے جو اپنے بندے پر فرض کیا ہے، اس پر عمل کرکے کوئی بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو اس سے زیادہ محبوب مجھے کوئی اَور چیز نہیں ہوتی۔ میرا بندہ ہمیشہ میری طرف نوافل کے ذریعے سے قرب حاصل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اُس وقت میں اُس کا کان بن جاتا ہے، جس سے وہ سنتا ہے۔ میں اُس کی آنکھ بن جاتا ہے، جس سے وہ دیکھتا ہے۔ میں اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ میں اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرے تو میں اُسے ضرور دیتا ہوں۔ اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں اُسے پناہ دے دیتا ہوں۔ میں جو کام کرنے والا ہوتا ہوں، اُس میں کسی چیز میں مجھے ایسا تردّد اور ہچکچاہٹ نہیںہوتی، جتنا کہ ایک مؤمن کی جان لینے کے حوالے سے ہچکچاہٹ ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ موت کو ناپسند سمجھتا ہے۔ اور میں بھی اُس کی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں، لیکن موت کا ہونا بھی اُس کے لیے ضروری ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2266)
میں کہتا ہوں کہ:
(الف) جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے اور اُس کی محبت ملائِ اعلیٰ میں اُترتی ہے، پھر اُس کے لیے زمین میں بھی قبولیت نازل ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی آدمی اللہ کے اس محبوب بندے کے لیے بنائے گئے نظام کی مخالفت کرتا ہے اور اُس سے دشمنی کرتا ہے، اور اُس کے احکامات کو رد کرنے اور اُس کی مخالفت کی کوشش کرتا ہے تو اس محبوب بندے کی وجہ سے اللہ کی رحمت اُس کے دشمن پر لعنت کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس بندے سے راضی ہونا اُس کی دشمنی کرنے والے پر اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔
(ب) جب حق تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف اپنی شریعت کے اِظہار کی تجلی ڈالتا ہے اور دین کو قائم کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے اور حظیرۃ القدس میں اُس دین کی شریعت اور طریقے لکھ دیتا ہے تو یہ فرائض اور سننِ شریعت اللہ کی رحمت کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بنتی ہے۔ اور اللہ کی رضا کو اپنی موافقت میں بنا لیتی ہے۔ شریعت کے فرض کردہ کاموں میں سے تھوڑا کام بھی بہت زیادہ نفع کا باعث بنتا ہے۔
(ج) جب کوئی بندہ ہمیشہ فرائض کے ادا کرنے کے بعد کثرتِ نوافل کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کو اپنی رحمت کے پردوں میں ڈھال لیتا ہے اور اُس وقت اُس کے اعضا کو نورِ الٰہی کی تائید حاصل ہوجاتی ہے۔ اس بندے کی اپنی ذات، اس کی بیوی، اس کی اولاد اور اس کے مال میں بھی برکت پیدا ہوجاتی ہے اور اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اسے ہر طرح کے شر سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اور اس کی مدد کی جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس قرب کا نام ’’قرب الاعمال‘‘ ہے۔
(د) بندے کی موت کے وقت اللہ کو جو تردّد اور ہچکچاہٹ ہوتی ہے، یہ دراصل کنایہ ہے کہ اللہ کی مختلف عنایات میں تعارُض ہوتا ہے۔ بے شک حق تبارک و تعالیٰ کی ہر ایک نظام __ خواہ وہ نوعی ہو یا شخصی __ کے حوالے سے ایک الگ عنایت اور مہربانی ہے۔ انسانی جسم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی عنایت کا تقاضا ہے کہ اُس بندے پر موت طاری ہو یامرض آئے اور دنیاوی حالات کی تنگی آئے (اس لیے کہ انسانی جسم کمزور پیدا کیا گیاہے)۔ اور اللہ کی محبوب روح اور نفس پر اللہ کی عنایت تقاضا کرتی ہے کہ ہر پہلو سے اُس کے لیے سہولتیں اور آسانیاں پیدا کی جائیں اور اُسے ہر شر سے محفوظ رکھا جائے۔ (اب جب اللہ تعالیٰ کسی نیک بندے کی روح قبض کرتا ہے تو ان دونوں عنایتوں اور مہربانیوں میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے ’’تردّد‘‘ اور ’’ہچکچاہٹ‘‘ کا۔ اس لیے کہ نیک بندے کو اگلے سفر کے لیے موت کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہے۔)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…
احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت (1)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (4۔ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی عظمت اور سلطنت ) ’&rs…