وَضُرِبَت عَلَيهِمُ الذِّلَّةُ وَالمَسكَنَةُ وَباءوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كانوا يَكفُرونَ بِآياتِ اللَّهِ وَيَقتُلونَ النَّبِيّينَ بِغَيرِ الحَقِّ ۗ ذٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ (-2البقرہ: 61)
(اور ڈالی گئی ان پر ذلت اور محتاجی، اور پھرے اللہ کا غضب لے کر۔ یہ اس لیے ہوا کہ نہیں مانتے تھے احکامِ خداوندی کو، اور خون کرتے تھے پیغمبروں کا ناحق۔ یہ اس لیے کہ نافرمان تھے اور حد پر نہ رہتے تھے۔)
گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ اُن کی شخصی تہذیب سے لے کر قومی شہری اجتماعیت کے تربیتی مراحل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کی ترقی کے لیے بہت زیادہ جدوجہد اور کوشش کی، لیکن ان کی اکثریت فرعونی غلامی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی۔ انھوں نے فرعون کی غلامی سے آزادی اور حریت حاصل ہونے، اُن پر تورات ایسی اعلیٰ کتاب کے نازل ہونے، صحرائی زندگی کے انعامات، مَنّ و سلویٰ حاصل کرنے، پانی کی منصفانہ تقسیم، ابتدائی اجتماعیت سے لے کر قومی اجتماعیت ایسے بڑے انعامات حاصل کرنے کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احکامات کی پوری پاسداری نہیں کی۔ اُن کے تعلیم و تربیت کے اقدامات کو قبول نہیں کیا، بلکہ مسلسل اُن کی نافرمانی کرتے ہوئے بچھڑے کی پوجا کی، مشاہدۂ باری تعالیٰ کا مطالبہ کیا۔ بستی میں داخل ہوتے وقت توبہ اور استغفار کے بجائے نافرمانی پر مبنی الفاظ ادا کیے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کے بجائے ناانصافی کے رویے اپنائے اور شہری زندگی کے اُمور میں ظلم و عدوان کی عادت اپنائی۔ اس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے تمام قوانین شکن بنی اسرائیلیوں پر ذلت و مسکنت اور غضبِ الٰہی کا عذاب نازل کیا۔ آیتِ مباکہ کے اس جُز میں اُن کی اسی سزا اور عذاب کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
وَضُرِبَت عَلَيهِمُ الذِّلَّةُ وَالمَسكَنَةُ٭:کسی بہتر اجتماعی نظام کی تشکیل میں اعلیٰ فکر، عزت و احترام اور امن و امان والا مستحکم سیاسی نظام، عدل و انصاف پر مبنی خوش حالی کا معاشی نظام بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان تینوں دائروں میں بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات ہوئے، لیکن انھوں نے تورات کی تعلیمات پر مبنی اعلیٰ علم و فکر کو پورے طور پر قبول نہیں کیا۔ عدل و انصاف اور امن و امان کے بہترین سیاسی نظام کی پوری پاسداری نہیں کی۔ معاشی عدل و انصاف کے منصفانہ نظام سے روگردانی کی۔ مَنّ و سلویٰ اور غذائی اَجناس کی ذخیرہ اندوزی کرکے معاشی ظلم و ناانصافی کے رویوں کا اظہار کیا۔ اس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر تین عذاب مسلط کیے۔
1۔ الذِّلَّةُ: سیاسی حوالے سے ذلت اور رُسوائی کا عذاب مسلط ہوا، یہاں تک کہ ان کی انھی عادات و اطوار کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے وہ حکومت سے محرومی میں مبتلا ہوئے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’ذلت یہ ہے کہ ہمیشہ مسلمان اور نصاریٰ (عیسائیوں) کے محکوم اور رعیت رہتے ہیں۔ کسی کے پاس مال ہوا تو کیا، (اپنی مستقل اور آزاد قومی) حکومت سے بالکل محروم ہوگئے، جو موجبِ عزت تھی‘‘۔
2۔ المَسكَنَةُ: معاشی بے انصافی اور ظلم کے نتیجے میں ان پر معاشی حوالے سے مسکنت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’محتاجی یہ ہے کہ اوّل تو یہود میں مال کی قلّت (رہی)، اور جن کے پاس مال ہو بھی تو حُکّام (اصل حکمرانوں) وغیرہ کے خوف سے اپنے آپ کو مخلص او رحاجت مند ہی ظاہر کرتے ہیں۔ شدتِ حرص اور بخل کے باعث محتاجوں سے بدتر نظر آتے ہیں۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ’’تونگری بہ دل است نہ بہ مال‘‘ (معاشی آسودگی دل سے ہوتی ہے، نہ کہ مال سے)۔ اس لیے کہ مال دار ہو کر بھی محتاج ہی رہے‘‘۔
3۔ وَباءوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ : کوئی قوم اعلیٰ علم حاصل کرلینے کے باوجود اس پر پورے طور پر عمل نہ کرے تو وہ غضب ِالٰہی کی مستحق ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے پاس ایک اعلیٰ کتاب تورات کی صورت میں برہان بن کر نازل ہوئی، لیکن انھوں نے اس کی پورے طور پر پاسداری نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا۔ علم کی صحیح قدر نہ کی جائے اور اس کے تقاضوں کے مطابق پورا عمل نہ کیا جائے تو وہ قوم ’’مغضوب علیہم‘‘ بن جاتی ہے۔ اس لیے ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’عظمت اور عزت جو اللہ نے عطا فرمائی تھی، اس سے رجوع (روگردانی) کرکے اس کے غضب و قہر میں آگئے‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ انھوں نے تین بڑے جرائم کیے ہیں:
1۔ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كانوا يَكفُرونَ بِآياتِ اللَّهِ: اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی ترقی اور تہذیب کے لیے اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے کلامِ الٰہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیا پر نازل کیا تھا، لیکن انھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈالا، اس سبب سے وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ہوئے۔ یہود کی پوری تاریخ اللہ کی آیات؛ تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم کے انکار اور توہین پر مبنی رہی ہے۔
2۔ وَيَقتُلونَ النَّبِيّينَ بِغَيرِ الحَقِّ ۗ : اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے جو انبیا علیہم السلام ان کی تعلیم و تربیت کے لیے آئے اور انھیں برائیوں سے باز رکھنے کی کوشش کی، انھیں ناحق شہید کیا، انتہائی اذیتیں اور تکلیفیں دیں اور اپنی بُری عادتوں پر ڈٹے رہے۔
3۔ ذٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ: کوئی قوم ظلم، ناانصافی اور نافرمانی کو اپنا رویہ بنا لے تو وہ دنیا میں بھی عذاب کی مستحق ہوتی ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے۔ بنی اسرائیل ’’عِصیان‘‘ و ’’عُدوان‘‘ پر کاربند رہے۔ ’’عِصیان‘‘ یہ ہے کہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کی نافرمانی اور ان میں کمی اور کوتاہی کرنا۔ ’’عُدوان‘‘ یہ ہے کہ ظلم و ناانصافی کو اپنی عادت اور رویہ بنا لینا۔ اس اِفراط و تفریط اور ظلم و زیادتی کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر یہ عذاب مسلط کیا۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…