قالُوا ادعُ لَنا رَبَّكَ يُبَيِّن لَنا ما لَونُها ۚ قالَ إِنَّهُ يَقولُ إِنَّها بَقَرَةٌ صَفراءُ فاقِعٌ لَونُها تَسُرُّ النّاظِرينَ
قالُوا ادعُ لَنا رَبَّكَ يُبَيِّن لَنا ما هِيَ إِنَّ البَقَرَ تَشابَهَ عَلَينا وَإِنّا إِن شاءَ اللَّهُ لَمُهتَدونَ
قالَ إِنَّهُ يَقولُ إِنَّها بَقَرَةٌ لا ذَلولٌ تُثيرُ الأَرضَ وَلا تَسقِي الحَرثَ مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فيها ۚ قالُوا الآنَ جِئتَ بِالحَقِّ ۚ فَذَبَحوها وَما كادوا يَفعَلونَ (-2 البقرہ:69-71)
(بولے کہ: دعا کر ہمارے واسطے اپنے ربّ سے کہ بتادے ہم کو کیسا ہے اس کا رنگ؟ کہا: وہ فرماتا ہے کہ: وہ ایک گائے ہے زرد، خوب گہری ہے اس کی زردی، خوش آتی ہے دیکھنے والوں کو۔ بولے: دعا کر ہمارے واسطے اپنے ربّ سے کہ بتادے ہم کو کس قسم میں ہے وہ؟ کیوں کہ اس گائے میں شبہ پڑا ہے ہم کو، اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو ضرور راہ پالیں گے۔ کہا: وہ فرماتا ہے کہ: وہ ایک گائے ہے، محنت کرنے والی نہیں کہ جوتتی ہو زمین کو، یا پانی دیتی ہو کھیتی کو، بے عیب ہے، کوئی داغ اس میں نہیں، بولے: اب لایا تو ٹھیک بات۔ پھر اس کو ذبح کیا۔ اور وہ لگتے نہ تھے کہ ایسا کرلیں گے۔) (ترجمہ از حضرت شیخ الہندؒ)
گزشتہ دو آیاتِ مبارکہ سے گائے کے ذبح سے متعلق واقعے کا بیان جاری ہے۔ بنی اسرائیل کے ذہنوں میں مصریوں کی صحبت سے گائے کی تقدیس کا تصور پایا جاتا تھا۔ اس لیے اس واقعے کے ذریعے اُن کے ذہن کے نہاں خانوں میں چھپے ہوئے گائے کی تقدیس کے نظریے کا رد کرتے ہوئے انھیں اجتماعی طور پر ذاتِ باری تعالیٰ اور اُس کی تجلیاتِ الٰہیہ کے ساتھ جڑنے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے۔
بنی اسرائیل کو جب حکم دیا گیا کہ تم گائے ذبح کرو تو اُن کے ذہن میں گائے کے حوالے سے تقدیس کا تصور گردش کر رہا تھا، اور ان کے لیے اس سے چھٹکارا پانا طبعی، رسمی اور علمی طور پر بڑا تکلیف دہ تھا تو انھوں نے گومگو کی حالت میں اس حوالے سے تین سوالات کیے۔ اُن کے پہلے سوال کا جواب گزشتہ آیت میں بیان کردیا گیا ہے۔
پیشِ نظر مذکورہ بالا آیات میں بنی اسرائیل کے دیگر دو سوالات کا تذکرہ ہے:
قالُوا ادعُ لَنا رَبَّكَ يُبَيِّن لَنا ما لَونُها ۚ: انھوں نے دوسرا سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ربّ سے پوچھ کر ہمیں یہ بتائیں کہ ذبح کی جانے والی گائے کا رنگ کیسا ہو؟ پہلے گائے کی عمر اور اس کی حالت پوچھی۔ اب وہ اس کا رنگ وغیرہ پوچھنا چاہتے ہیں۔ اس سوال میں اپنے ربّ سے دعا مانگنے کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور اُس کی طرف سے بیان کا انتظار کر رہے ہیں۔
قالَ إِنَّهُ يَقولُ إِنَّها بَقَرَةٌ صَفراءُ فاقِعٌ لَونُها تَسُرُّ النّاظِرينَ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا حکم بیان کیا کہ اُس گائے کی رنگت خوب گہری زرد ہو اور اس کی زردی ایسی ہو جو تمام دیکھنے والوں کے لیے فرحت اور سرور بخشنے والی ہو۔ رنگت ایسی ہو، جو انسانی سوسائٹی میں سُرور بھر دے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا:
قالُوا ادعُ لَنا رَبَّكَ يُبَيِّن لَنا ما هِيَ إِنَّ البَقَرَ تَشابَهَ عَلَينا وَإِنّا إِن شاءَ اللَّهُ لَمُهتَدونَ: انھوں نے تیسرا سوال کیا کہ اپنے ربّ سے پوچھ کر ہمارے سامنے یہ بیان کریں کہ وہ گائے کس قسم کی ہے؟ اس حوالے سے گائے کی علمی معرفت ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے۔ ہمیں جب اُس کے بارے میں پورا علم اور معرفت حاصل ہوگئی تو ہم ضرور ہدایت کے سیدھے راستے پر پہنچ جائیں گے اور صدقِ دل سے اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے گائے ذبح کریں گے۔
قالَ إِنَّهُ يَقولُ إِنَّها بَقَرَةٌ : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں اس گائے کی حقیقت اور تعارف کے حوالے سے تین باتیں ارشاد فرمائیں:
الف: لا ذَلولٌ تُثيرُ الأَرضَ : وہ گائے ایسی ہونی چاہیے، جو زمین کی کاشت کاری میں ہل چلا کر کمزور اور دُبلی پتلی نہ ہوچکی ہو، بلکہ صحت مند اور فربہ ہو۔
ب: وَلا تَسقِي الحَرثَ : وہ گائے ایسی ہونی چاہیے، جو کھیتی کو سیراب کرنے کے کنوئیں سے پانی کھینچنے کے کام میں استعمال ہو کر بے کار نہ ہوچکی ہو۔
ج: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فيها ۚ : ایسی بے عیب ہو کہ اُس کے اعضا میں کوئی کمی نہ ہو، اور اُس کے رنگ میں کسی دوسرے رنگ کا داغ اور نشان نہ ہو، بلکہ پوری زرد ہو۔
قالُوا الآنَ جِئتَ بِالحَقِّ ۚ فَذَبَحوها وَما كادوا يَفعَلونَ: اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ہاں! اب ہمارے ذہن میں حق واضح ہوگیا۔ چناں چہ انھوں نے اُس گائے کو ذبح کیا، جب کہ اس سے پہلے وہ اُسے ذبح کرنے والے نہیں تھے۔
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ معرفت ِخداوندی کے حوالے سے انسان میں تین طرح کے حجابات ہوتے ہیں: (1) حجابِ طبع، (2) حجابِ رسم، (3) حجابِ سُوءِ معرفت۔ بنی اسرائیل میں ذاتِ باری تعالیٰ کی تجلیات تک براہِ راست ربط پیداکرنے میں گائے کی تقدیس کے تصور کے حوالے سے یہ تینوں حجابات پائے جاتے تھے۔ چناں چہ اُن کے یہ تین سوالات، ان تینوں حجابات سے متعلق ہیں۔ چناں چہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے سوال کے جواب میں اُن کی طبیعت پر چھائے ہوئے حجاب کو توڑا۔ اسی لیے پہلے سوال کے جواب میں طبعی حجاب کی دو انتہائیں ’’فارض ‘‘ (بوڑھی) اور ’’بِکر‘‘ (بِن بیاہی) کی نفی کرکے ’’عوان بین ذٰلک ‘‘ کے طبعی اعتدال کو واضح کیا۔ دوسرے سوال کے جواب میں اُن کے حجابِ رسم کو توڑ کر اچھی رسم اور ماحول کے لیے فرحت انگیز اور سُرور بخش ہونے کا ذکر کیا۔ تیسرے سوال کے جواب میں معرفتِ علمی کے حوالے سے ان کی بدفہمی اور سوئے معرفت کو دور کرتے ہوئے فربہ، بہترین اور صاف ستھری گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح اُن کے حجابات ٹوٹنے سے اُن پر حق کی تجلیٔ الٰہی روشن ہو کر سامنے آگئی۔ اسی کو انھوں نے ’’جئت بالحق ‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ اس تجلیٔ حقانی کی وجہ سے وہ سب متفق ہوگئے کہ گائے ضرور ذبح کی جائے، حال آں کہ وہ سوالات کے ان جوابات سے پہلے گائے ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس طرح تربیت کے نبوی کے انداز و اُسلوب نے انھیں اللہ کے حکم پر عمل درآمد کے لیے آمادہ کرلیا۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…