وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَإِنَّ لَكُم ما سَأَلتُم ۗ
(اور جب کہا تم نے: اے موسیٰ! ہم ہرگز صبر نہ کریں گے ایک ہی طرح کے کھانے پر، سو دعا مانگ ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے کہ نکال دے ہمارے واسطے جو اُگتا ہے زمین سے ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز۔ کہا موسیٰ نے: کیا لینا چاہتے ہو وہ چیز جو ادنیٰ ہے، اُس کے بدلے میں جو بہتر ہے۔ اُترو کسی شہر میں تو تم کو ملے جو مانگتے ہو۔ البقرہ:61)
گزشتہ آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت کے لیے کیے گئے انعامات کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن میں شخصی تربیت سے لے کر صحرائی اجتماعیت پر مبنی ابتدائی تربیت سے متعلق اُمور بیان کیے گئے تھے۔ نیز معاشی اُمور کی منصفانہ تقسیم سے متعلق احکامات کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس آیت ِمبارکہ کے اس حصے میں اس سے اگلی قومی شہری اجتماعیت سے متعلق اُمور بیان کیے جا رہے ہیں۔
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ:صحرائی زندگی میں مَنّ و سلویٰ کی صورت میں عمدہ غذا اور متعین شدہ چشموں سے منصفانہ طور پر پانی کی تقسیم کی ایک درجے میں تربیت حاصل کرنے کے بعد بنی اسرائیل میں اس یکسانیت سے اُکتاہٹ پیدا ہوگئی۔ چناںچہ انھوں نے اگلے مرحلے کی قومی اجتماعیت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں ابتدائی صحرائی اور بستی کی یکساں زندگی سے نکل کر ایک نئی اور متنوع اجتماعیت کی ضرورت ہے، جس میں کھانے پینے کی چیزوں میں تنوع ہو۔ غذاحاصل کرنے کے اَور بھی طریقے ہونے چاہئیں۔ پانی کے حصول کے لیے بھی نئے وسائل سے استفادے کی صورت ہونی چاہیے۔ اب ہم یکسانیت پر زیادہ دیر تک صبر نہیں کرسکتے۔ ہماری اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ قومی سطح کا مصری اور شہری نظام قائم کریں۔
فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ:انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لیے اپنے ربّ سے دعا کریں کہ زمین سے اُگنے والی قدرتی غذائیں ہمیں حاصل ہوں۔ بغیر کام کاج کیے ہوئے محض مَنّ و سلویٰ کھاتے رہنا اور بغیر کسی محنت و مشقت کے چشموں سے پانی حاصل کرلینے پر ہم قناعت نہیں کرسکتے، بلکہ کاشت کاری کے لیے زمین تیار کرنا، زمین کی آباد کاری اور آب پاشی کے لیے پانی کے وسائل کا مہیا ہونا، اور اُس سے اُگنے والی فصلات کے حاصل کرنے کا طریقہ ہمیں سکھایا جائے۔ ان وسائل کے حصول سے ہی قومی ترقی حاصل ہوگی۔
مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ:بنی اسرائیل نے زمین سے اُگنے والی پانچ چیزوں کا مطالبہ کیا۔ سب سے پہلے ’’بَقْل‘‘ یعنی سبزی اور ساگ وغیرہ کا مطالبہ کیا۔ اس سے مراد وہ تمام تر نباتاتی سبزیاں ہیں، جنھیں براہِ راست پکا کر انسان غذا حاصل کرتا ہے۔ پھر ’’قِثَّاء‘‘ کا مطالبہ کیا، یعنی سبز بیلوں پر لگنے والی پھلیاں اور سبزیاں، مثلاً ککڑی، کدو، ٹینڈے وغیرہ ہیں۔ تیسرے ’’فُوْم‘‘ کا مطالبہ کیا، اس سے مراد اَناج؛ گندم اور جَو وغیرہ ہیں، جن سے روٹی تیار کی جاتی ہے۔ حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ: ’’فُوْم سے مراد ہر وہ دانے دار جنس ہے، جس سے روٹی بنائی جاتی ہے‘‘ (تفسیر ابن کثیر)۔ چوتھے ’’عَدَس‘‘ کا مطالبہ کیا، اس سے مراد مسور وغیرہ تمام دالیں ہیں۔ چوتھے ’’بَصَل‘‘ کا مطالبہ کیا، اس سے مراد پیاز اور لہسن وغیرہ زمین کے اندر اُگنے والی سبزیاں ہیں۔ ان پانچوں غذاؤں میں ایک خاص تنوع، ذائقہ اور فوائدوثمرات ہوتے ہیں۔ ساگ اور سبزیاں ایک محدود مدت تک محفوظ رکھی جاسکتی ہیں، جب کہ اناج، دالیں اور پیاز وغیرہ زیادہ مدت تک ذخیرہ کیے جاسکتے ہیں۔ ان تمام غذاؤں کی کاشت کاری کے لیے خاصی محنت و مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے اور انھیں ذخیرہ کرنے کے لیے شہری زندگی کے دیگر لوازمات بھی پورا کرنے پڑتے ہیں، جو کاشت کاری کے آلات کے حوالے سے صنعت کاری کو وجود میں لانے کا باعث ہوتے ہیں۔ اور ذخیرہ شدہ اناج کی خرید و فروخت کے لیے تجارتی سرگرمیوں اور ان کے لیے منڈیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس طرح قومی سطح کا ایک شہری نظام قائم کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم عجیب لوگ ہو، بغیر کام کاج کیے تمھیں مَنّ و سلویٰ مل رہا ہے۔ اور زراعت کے لیے آب پاشی کا نظام قائم کیے بغیر تمھیں اچھی بہترین زندگی حاصل ہے تو پھر اُسے کم تر درجے کی محنت اور مشقت کی زندگی سے کیوں بدلنا چاہتے ہو؟
اهبِطوا مِصرًا فَإِنَّ لَكُم ما سَأَلتُم ۗ :حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا! اگر یہی تمھارا سوال ہے اور اگر تم اگلی زندگی کی ترقیات واقعی حاصل کرنا چاہتے ہو تو چلو جاؤ کسی شہر میں اُترو، تم جو مانگتے ہو، وہ تمھیں ملے گا۔ قومی اجتماعی زندگی کے لیے اُصول وہی ہے کہ معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے اور زمین میں فساد نہ مچایا جائے۔ عدل و انصاف کے ساتھ شہری نظام قائم کیا جائے۔ اس لیے کہ قومی اجتماعیت میں انسانوں کی ضروریات اور حاجات بڑی کثرت سے ہوتی ہیں۔ اُس میں اگر فائدے بہت ہیں تو بعض اوقات نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ قومی اجتماعیت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اگر اجتماعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کچھ انفرادی نقصانات اُٹھانا بھی پڑیں تو انھیں برداشت کیا جائے۔ اور جو اجتماعی منافع اور فوائد ہیں، اُن کو پوری توانائی اور صبر و استقامت کے ساتھ حاصل کرنے کی جدوجہد اور کوشش کی جائے۔ اپنی طبیعتوں کے انفرادی تقاضوں کو کنٹرول کیا جائے اور اجتماعی تقاضوں کے مطابق قومی سطح پر بہترین سیاسی اور معاشی نظام قائم کیا جائے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…