عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ:
’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (السّنن للتّرمذی، حدیث: 2488)
(حضرت عبداللہ بن مسعوؓد کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے! 1۔ لوگوں سے قریب رہنے والے، 2۔ آسانی کرنے والے، 3۔ اور نرم اَخلاق والے پر جہنم حرام ہے۔)
اس حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرمﷺ ایک مؤمن کے اہم مقصد کے حصول کی حکمتِ عملی بتارہے ہیں۔ وہ مقصد یہ ہے کہ آخرت میں انسان کو جہنم سے چھٹکارا اور اللہ کی رضا کے مقام جنت میں داخلہ نصیب ہوجائے۔ اس ضمن میں حضورﷺ نے ان تین چیزوں کا ذکر کیا ہے، جو انسان کو جہنم سے بچائیں گی:
(1) لوگوں سے قریب رہنے والے، یعنی انسان کی زندگی اس طرح کی ہو کہ جس میں لوگوں کو اس کے ساتھ ملنے جلنے اور اسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں کسی قسم کا کوئی حجاب اور کوئی رُکاوٹ نہ ہو۔ اور وہ بلاکسی تکلف لوگوں کے ساتھ اپنا رابطہ قائم رکھنے والا ہو۔ کبروغرور سے پاک، انسانی ہمدردی رکھنے والے اور لوگوں کے دُکھوں اور خوشیوں میں شریک ہونے والے لوگ عمدہ اَخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔
(2) یہ لوگ آسانی کرنے والے ہوتے ہیں، یعنی لوگوںکے ساتھ ایسا سلوک اختیار کرتے ہیں کہ ان کی وَجہ سے لوگ اپنی زندگیوں میں آسانیاں محسوس کریں۔ معاشی، سماجی طور پر یا دیگر اَور معاملات میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا کہ جو ان کے لیے راحت، آرام اور سکون کا باعث بنے، بہت اونچا خلق ہے۔
(3) ایسے لوگ جو نرم اَخلاق والے ہوں، یعنی جن کے رویوں میں سختی، درشتی اور دوسرے انسانوں کے لیے بے جا ایسا طرزِعمل نہیں ہوتا جو اُن کے لیے بلاسبب تکلیف کا باعث ہو، یا انھیں مشکل اور سختی میں ڈالے۔ یہ وہ اُمور ہیں جو دوسرے انسانوں کے لیے دنیا میں پُرسکون، باوقار اور آسانی والی زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
زیرِغور حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عقائد و عبادات کے اہتمام کے بعد اہم ترین راہِ عمل انسان کے وہ عمدہ اخلاق ہیںکہ جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ ہو۔ اور لوگوں کے لیے ایسے مؤمن کے ساتھ مل کر پُرسکون، باوقار، خوش حال اور خوشیوں والی زندگی گزارنا ممکن ہوجائے۔ یہ طرزِعمل انسان کے لیے جہنم سے چھٹکارے اور جنت کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ سرمایہ پرستی کے نظام نے اس اونچے تصورات اور اَخلاقیات کو گہنا دیا ہے۔ اہلِ دین کی ذمہ داری ہے کہ اس اہم اور نہایت قابلِ توجہ دینی فریضے کی طرف متوجہ ہوں۔
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
غیرمسلم کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم
عَنْ أَسْمَائَ، قَالَتْ: قَدِمَتْ أُمِّی وَ ھِی مُشْرِکَۃٌ فِیْ عَھْدِ قُرَیْشٍ و مُدَّتِھِمْ، إِذْ عَاھَدُوْا النَّبِیِّ ﷺ، مَعَ أَبِیْھَا، فَاسْتَفْتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّی قَدِمَتْ وَ ھِیَ رَاغِبَۃٌ، أفأصِلُھا؟ قَالَ: ’’نَعَمْ صِلِیْ…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…