کسی ملک میں مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام وہاں کے عوام کے سیاسی شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔ باشعور قوم کے عوام سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنتے اور سیاست دانوں کو اپنے جذبات سے کھیلنے بھی نہیں دیتے، بلکہ وہ سیاست دانوں کے غلط فیصلوں میں سب سے بڑی رُکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں غربت، جہالت، بے روز گاری اور امن و امان کی ابتر صورتِ حال کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کی عدمِ دستیابی نے عوام کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ روزمرّہ کی ضروریات پورا کرنے کی مصروفیات اور پریشانیوں نے ان کے سماجی شعور کو گہنا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ معاشی اور سیاسی طور پرانتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کے ہاتھوں بار بار نقصان اٹھا چکے ہیں، جس کے بعد یہاں کے سیاسی نظام میں ان کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں بچا۔
عوام میں سیاسی شعور کی کمی کے باعث آئے دن سیاست دان ان کے جذبات سے کھیلتے اور انھیں نئے وعدوں سے بہلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سیاسی شعور میں کمی کے باعث عوام کا صرف سیاست دان ہی استحصال نہیں کرتے ،انتظامیہ بھی ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روا رکھتی ہے۔ پاکستان کے عوام‘ خصوصاً نوجوان آئین میں موجود اپنے حقوق سے متعلق آگہی نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے ادارے انھیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانکتے ہیں۔ تقسیم کے بعد جس طرح اس ملک کے پورے اثاثے اسے نہیں ملے، اسی طرح اس کے حصے میں آنے والے سیاست دان بھی ترقی پسند سیاسی نظریات سے محرومی کے باعث قوم کے لیے سیاسی میدان میں کسی صحت مند روایت کی بنیاد نہ رکھ سکے، بلکہ سرمایہ دارانہ نظریات اور جاگیر دارانہ نفسیات کے ساتھ انھوں نے قوم پر حکمرانی شروع کی، جس کے بعد اب ہمارے ملک میں بچگانہ سیاسی عہد کا آغاز ہوچکا ہے، کیوں کہ اس فرسودہ قیادت نے اپنی تیسری نسل کو میدان میں اُتار کر طفلانہ سیاست کا آغاز کرکے اسے ’’لُعبۂ صِبیان‘‘ (بچوں کا کھیل) بنا کر رکھ دیا ہے۔
ان بچوں کو سیاست کی کوئی شدبد نہیں، لیکن عوام کے جذبات سے کھیلنا انھیں ورثے میں ملا ہے۔ یہ حادثاتی رہنما پاکستان میں تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں، مگر تاثر یہ دے رہے ہیں کہ سب اچھا چل رہا ہے۔یہ ’بچگانہ‘ ذہنیت کے حامل خود پسند سیاست دان نوجوانوں کی ملکی سیاست سے مایوسی کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی بوجوہ بہت سے سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی مسائل کے حوالے سے گہری کھائی میں جا گرا تھا۔ اب یہ مسائل عوام کے لیے چیلنج کا روپ دھارچکے ہیں۔ کچھ عناصر نے ان مسائل کو مزید اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ملک کی خوش حالی کو برباد کرنے والے یہ لوگ دیمک زدہ نظام کے ڈھانچے سے کچھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں کہ ان عفریتوں سے انقلاب کے بغیر چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔ کمزور معاشی حالات، خراب تعلیم، غربت، روزگار اور ترقی کے کم ہوتے مواقع، منفی مذہبی اور سیاسی اثر و رسوخ، امن و امان کی خراب صورتِ حال اور ناانصافیوں نے عوام میں سے نوجوان نسل کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی، جرائم، جہالت اور نفرت کی طرف ایسا مائل کردیا ہے کہ جو طبقہ عوام کی اُمنگوں کا ترجمان بن سکتا تھا، وہ خود رَوگی ہوتا چلا جارہا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد نوجوانوں کو یہاں کے نظام نے خصوصی طور پر اپنا ہدف بنایا اور انھیں نہ صرف سیاسی اور سماجی ترقی کے شعور سے محروم رکھا گیا ہے، بلکہ حکومتِ وقت اور عسکری اداروں نے انھیں مذہبی عسکریت پسندوں کی جھولی میں ڈال دیا، جنھوں نے ان کے سماجی، معاشی، شہری، سیاسی اور ثقافتی حقوق اور شناخت کو پامال کرکے رکھ دیا۔ آج ان مذہبی عسکریت پسند جماعتوں نے اپنے اس جرم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن وہ لکھی تاریخ کو نہیں مٹا سکتے۔
ہمارے نوجوان کا سیاسی شعور بہت اہمیت کا حامل ہے: (1) اسے سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ کیوں کہ سیاست معاشرتی ترقی کا اہم جز ہے ہم دیکھتے ہیں کہ خراب سیاسی نظام کے نتیجے میں ہر روز ہزاروں لوگ اپنی جان اور ذریعۂ معاش سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ (2) ہمارے نوجوان کو آگاہ رہناچاہیے کہ آج ماحول میں کیا ہو رہا ہے؟ کیوں کہ اگر آپ اپنی ریاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھیں گے کہ اس نظام میں کون سے نئے قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں اور اس نظام کی خرابی کی حقیقی نوعیت کیا ہے؟ تو آپ کبھی بھی اپنی سیاسی جد وجہد کی صحیح سمت کا انتخاب نہیں کرسکیں گے۔
(3) پاکستان کے نوجوانوں کو اندھا دُھند سیاسی تقلید سے بچنا چاہیے۔ اسے اپنے شعور کو صیقل کرنا چاہیے اور سیاسی جد وجہد کا درست فیصلہ کرنے کے لیے معاشرے میں موجود تمام بیانیوں اور نظریات کے بارے میں درست معلومات بہم پہنچانی چاہئیں۔ ہمارے ملک میں بہت سی جماعتیں اور لیڈر موجود ہیں۔ زیادہ تر سیاست دانوں کیPRٹیمیں عوام کا دل جیتنے کے لیے اپنے لیڈر کے بارے میں مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ کرتی ہیں اور لیڈر روایتی تقاریر میں عوام کا دل پرچانے کے لیے ان کی مانگ اور طلب کے مطابق اپنی تقریروں میں مختلف ’’ٹچ‘‘ دیتے رہتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر ایک باشعور نوجوان خوب صورت ماسک کے پیچھے چھپے اصل چہرے کو پہچان لیتا ہے۔
آج اور کل جن سیاسی لیڈروں نے ایک خاص ردِ عمل میں اپنے آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا تھا، ہر ایک کے اقتدار کی رِم جھم نے ان کے چہرے کا غازہ (میک اپ) اُتار دیا ہے۔ محض اپنے مفادات کے تضاد کی بنیاد پر کسی ادارے کی چند شخصیات سے شکررَنجی کوئی نظریہ نہیں ہوتا، جب تک اس نظام کے حقیقی کردار کو چیلنج نہ کیا جائے۔ہماری آج کی سیاسی دنیا میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو معلومات ہم پڑھ رہے ہیں، بغیر شعوری نظریہ رکھے ان پر انحصار تباہ کن ہے۔ لہٰذا ملک، معاشرے اور اس میں موجود جماعتوں، بیانیوں اور نظام کے متعلق ایک شعوری تجزیاتی اندازِ فکر اپنائے بغیر درست قیادت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ معاشرے اور ریاست باشعور لیڈرشپ کے اقدامات سے ہی بنتے ہیں۔
(مدیر)
Muhammad Abbas Shad
Editor Monthly Rahimia Magazine, Lahore
Related Articles
جمہوری تماشہ اور گماشتہ میڈیا
کسی بھی معاشرے میں حقیقی سیاسی عمل _ جو کسی بھی دباؤ سے آزاد ہو _ اس معاشرے کے مسائل کا حقیقی حل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں سیاسی عمل کٹھ پتلیوں کے سہارے اَن دیکھی قوتیں ک…
تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا آج کل ہمارے ہاں سیاسی حالات کی بے یقینی کی وجہ سے ایک طوفانی ہیجان برپا ہے۔ جب کبھی کسی ذمہ دار م…
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
وفاق المدارس، نئے تعلیمی بورڈزاور جدید وقدیم نصابِ تعلیم کا مسئلہ !
پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ …